ہم نے گذشتہ قسط میں حضرت امام سجاد علیہ السلام کے اس فقرے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ "وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَكَلَنِي إِلَيْهِ فَأَكْرَمَنِي ؛ حمد ہے اس ﷲ کی جس نے اپنی سپردگی میں لے کر مجھے عزت دی" یعنی اگر خدا ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیتا یا ہمیں دوسروں کے حوالے کردیتا تو ہماری سستی و کاہلی اور ہماری توھین کا سبب بنتا ، ہم توہین شدہ ، خار و ذیل اور رسوا انسانوں کی فہرست میں اجاتے ! تو اخر کیوں ؟ چونکہ قران کریم کا ارشاد ہے "اَلعِزَّةُ للهِ جَمِیعاً ؛ تمام کی تمام عزتیں خدا کیلئے ہیں (۱) ۔ اس ایت کریمہ کے مطابق چنانچہ اگر خداوند متعال انسان کو اپنے سوا کسی اور کے سپرد اور حوالہ کردے یا اس کو خود اس کے حال پر چھوڑ دے تو انسان ذیل و رسوا ہوگا کیوں کہ عزت فقط و فقط خدا سے مخصوص ہے ۔ لہذا اس مدبر و حکیم مطلق نے ہمیں ہمارے حال پر نہ چھوڑ کر اور غیر کے حوالہ نہ کرکے ہمیں ذیل و رسوا ہونے سے بچا لیا ۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام اس دعا کے بعد کے فقروں میں فرماتے ہیں کہ "وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تَحَبَّبَ إِلَيَّ وَ هُوَ غَنِيٌّ عَنِّي وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي يَحْلُمُ عَنِّي حَتَّى كَأَنِّي لاَ ذَنْبَ لِي فَرَبِّي أَحْمَدُ شَيْءٍ عِنْدِي وَ أَحَقُّ بِحَمْدِي" ۔
حمد ہے اس ﷲ کی جو مجھ سے محبت کرتا ہے اگرچہ وہ مجھ سے بے نیاز ہے اور حمد ہے اس ﷲ کی جو مجھ سے اتنی نرمی کرتا ہے جیسے میں نے کوئی گناہ نہ کیا ہو پس میرا رب میرے نزدیک ہر شئی سے زیادہ قابل تعریف ہے اور وہ میری حمد کا زیادہ حقدار ہے ۔
قران کریم نے پروردگار عالم کی اس خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے کہا " إنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحبِبْكُمُ الله ؛ [اے پیغمبر] کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تم سے محبّت کرے گا ۔ (۲) ، انسان کا بہترین ھمنشین ، بہترین دوست اور سود مند ذات خدا کے سوا کوئی نہیں ، وہ اپنی دوستی کے بدلے میں انسانوں سے کوئی مطالبہ نہیں رکھتا مگر انسان کے حق میں اپنی دوستی کا پورا حق ادا کرتے ہوئے ان کی ہر مشکل گھڑی کو اسان کردیتا ہے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، آخر وہ قدررتمند اور بے نیاز جو ہے ! اور اس بات سے بھی بخوبی آگاہ اور باعلم ہے کہ اس کا دوست [ انسان] ھمیشہ اس کا محتاج ہے اور اس اسے لو لگائے ہے ۔
روایت میں ہے کہ " قـالَ النّبِیّ صلی الله علیه و آله إنَّ اللّه َ تعالى قالَ لموسى عليه السلام : هَل عَمِلْتَ لي عَملاً قَطُّ ؟ قالَ: صَلّيتُ لكَ و صُمْتُ و تَصَدّقْتُ و ذَكَرتُ لكَ . قالَ اللّه ُ تباركَ و تعالى : أمّا الصَّلاةُ فلَكَ بُرْهانٌ ، و الصَّومُ جُنّةٌ ، و الصَّدقَةُ ظِلٌّ ، و الذِّكرُ نورٌ ، فأيَّ عَملٍ عَمِلتَ لِي ؟ قالَ موسى عليه السلام : دُلَّني على العَملِ الّذي هُو لَكَ . قالَ : يا موسى ، هَل والَيْتَ لِي وَلِيّا ؟ و هَل عَادَيْتَ لِي عَدُوّا قَطُّ ؟ فَعلِمَ موسى أنّ أفْضَلَ الأعْمالِ الحُبُّ في اللّه ِ و البُغْضُ في اللّه ِ .
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا کہ خداوند متعال نے جناب موسی علیہ السلام کو وحی کیا کہ کیا تم نے میرے لئے کچھ انجام دیا ہے ؟ جناب موسی (ع) عرض کیا کہ خدایا ہم نے تیرے لئے نماز پڑھی ، روزہ رکھا ، صدقہ دیا اور تجھے یاد کیا ، خداوند متعال نے جواب دیا کہ نماز تمھاری دلیل و برھان ہے ، روزہ تمھارا سپر ہے ، صدقہ تمھارے سر کا سایہ ہے اور ہماری یاد تمھارے لئے نور و روشنی ہے ، تم نے میرے لئے کیا کیا ؟ جناب موسی (ع) نے فرمایا کہ خدایا تو مجھے اس کام سے اگاہ کر جو تیرے لئے ہو ، خداوند متعال نے فرمایا اے موسی ! کیا تم نے کسی کو میرا دوست اور محب بنایا ہے ؟ اور کیا میری خاطر کسی سے دشمنی کی ہے ؟ تب جناب موسی (ع) کو معلوم ہوا کہ بہترین اور برترین اعمال خدا کی وجہ سے دوستی اور اس کی وجہ سے دشمنی ہے ۔ (۳)
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ نساء ، ایت ۱۳۹
۲: قران کریم ، سورہ ال عمران ، ایت ۳۱
۳: راوندی ، قطب الدین ، الدعوات : ۲۸/۵۰ ، جامع الأخبار: 352 / 976، مشكاة الأنوار: 124، بحارالأنوار: 69 / 252 / 33.
Add new comment