سوره رعد قرآن کی تیرہویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو تیرہویں پارے میں واقع ہے "رعد" بادل کی گرج کو کہا جاتا ہے یہ نام اس سورت کی تیرہویں آیت سے لیا گیا ہے اس سورت میں خدا کی توحید اور قدرت، قرآن کی حقانیت، پیغمبر اسلام1کی نبوت ، رسالت، قیامت کے حالات اور بہشت و جہنم کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔
13۔سوره رعد کا مختصر جائزه:سوره رعد قرآن کی تیرہویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو تیرہویں پارے میں واقع ہے "رعد" بادل کی گرج کو کہا جاتا ہے یہ نام اس سورت کی تیرہویں آیت سے لیا گیا ہے اس سورت میں خدا کی توحید اور قدرت، قرآن کی حقانیت، پیغمبر اسلام1کی نبوت ، رسالت، قیامت کے حالات اور بہشت و جہنم کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔
آیت نمبر 28 اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے جس میں خدا کی یاد کو دلوں کا سکون قرار دیا گیا ہے اسی طرح آیت نمبر 43 میں "من عنده علم الکتاب" کے بارے میں بعض مفسرین کا بیان ہے کہ اس سے مراد امام علیB ہیں، نقل ہوا ہے کہ جو شخص سوره رعد کی تلاوت کرے گا خدا ماضی، حال اور مستقبل میں موجود بادلوں کے دس گنا حسنہ اس شخص کو عطا کرے گا۔
مضامین
اس سورت کے اصل مضامین میں توحید، معاد (قیامت) اور وحی جیسے بنیادی مسائل شامل ہیں جبکہ اس کے فرعی موضوعات میں کائنات کے عجائبات اور نفس انسانی جیسے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انسان کو گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات اور خدا کی سنتوں میں غور و فکر کرنے کی دعوت ہے[1]،اس سورت کا اصل مقصد قرآن کی حقانیت اور اسے پیغمبر اکرمBکی رسالت پر معجزہ ہونے کو بیان کرنا ہے[2]۔
فضیلت اور خواص
اُبَیبن کَعب پیغمبر اکرم1سے نقل کرتے ہیں۔ جو شخص سورہ رعد کی تلاوت کرے خدا اسے ماضی، حال اور مستقل میں موجود بادلوں کا دس گنا ثواب عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس شخص کا شمار خدا کے عہد و پیمان پر عمل کرنے والوں میں ہو گا[3]۔ اسی طرح امام صادقBسے منقول ہے۔ "جو شخص سورہ رعد کی زیادہ تلاوت کرے خدا اسے دنیا میں آسمانی بجلی کی ذریعے موت نہیں دے گا اگرچہ وہ شخص اہل بیتFکے دشمنوں میں سے کیوں نہ ہو لیکن قاری اگر شیعہ ہو تو خدا اسے حساب و کتاب کی پریشانی کے بغیر بہشت میں داخل کرے گا اور اپنے خاندان اور جاننے والے ایمانی برادران کے حق میں اس کی شفاعت بھی قبول کی جائے گی[4]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1240۔
[2] طباطبایی، المیزان، ج۱۱، ص۳۸۷۔
[3] طبرسی، مجمع البیان، ج۶، ص ۴۱۹؛ محدث نوری، مستدرک الوسائل، ج۴، ص۳۴۳۔
[4] صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص ۱۰۷
Add new comment