1-لا أدبَ لِمَن لا عَقْلَ لَهُ .
بے عقل مؤدب نہیں ہو سکتا
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۱۱ / ۶
2-لَمّا سَألَهُ أبوهُ عنِ الشُّحِّ : أن تَرى ما في يَدَيكَ شَرَفا وما أنفَقتَ تَلَفا .
امام حسن عليه السلام سے جب ان کے والد نے شح (بخل کی ایک قسم/ تنگ نظری) بارے میں سوال کیا تو آپ نے فر مایا کہ جو پاس رہ جائے اسے اپنے لیے شرف سمجھنا اور جو ہاتھ سے نکل جائے اسے بربادی اور تلف شمار کرنا
وسائل الشيعه : ۱۶ / ۵۳۹ / ۱ .
3-وقد سُئلَ عن الجُبن : الجُرأةُ على الصَّديقِ ، والنُّكُولُ عَن العَدُوِّ .
امام حسن عليه السلام ـسے بزدلی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا دوستوں پر چڑھے رہنا اور دشمنوں سے دب جانا
4-لمّا سألَهُ أبوه عن تفسيرِ الجَهلِ : سُرعهُ الوُثوبِ علَى الفُرْصةِ قبلَ الاسْتِمْكانِ مِنها ، والامْتِناعُ عنِ الجَوابِ .
امام حسن عليه السلام سے جب ان کے والد نے جہالت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا اچھی طرح موقع جاصل ہونےسے پہلے اس میں جلدی سے کود پڑنا اور جواب نہ دے پانا
5-وقد سُئلَ عنِ الحِلْمِ : كَظْمُ الغَيظِ ومِلْكُ النَّفْسِ .
امام حسن عليه السلام سے حلم و بردباری کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نےفرمایاغصہ کو برداشت کرنا اور نفس پر کنٹرول رکھنا
6-مَن عَبدَ اللّه َ عَبّدَ اللّه ُ لَهُ كُلَّ شَيءٍ .
جو خدا وند عالم کی عبادت کر تا ہےخدا وند عالم دنیا کی ہر چیزکو اس کےسامنے جهكا دیتا ہے
تنبيه الخواطر : ۲ / ۱۰۸
7-ما فَتَحَ اللّه ُ عز و جل على أحدٍ بابَ مسألةٍ فَخَزنَ عَنهُ بابَ الإجابةِ .
خداوند عالم نے کسی بھی بندےکے لیےدعا اورسوال کا دروازہ نہیں کھولاجب تک استجابت کادروازہ نہ کھولا ہو .
8-أنا الضَّامِنُ لِمَن لَم يَهجُسْ في قلبهِ إلاّ الرّضا أن يَدعُوَ اللّه َ فَيُستَجابَ لَهُ .
جس کے دل میں خوشنو دی پرور گار کے علا وہ اور کوئی خواہش نہ ہو میں اس کی دعا کے قبول ہونے کا ضامن ہوں .
بحارالانوار : ۲۵/۳۵۱/۴۳
9-مَن قَرَأ القرآنَ كانَت لَهُ دعوةٌ مُجابةٌ إمّا مُعَجَّلَةً و إمّا مُؤَجَّلةً .
جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کرے اس کی دعا دیر یا زود ضرور قبول ہوتی ہے .
بحارالانوار : / ۹۳ / ۳۱۳ / ۱۷
10-مَنِ اتَّكَلَ على حُسنِ الاختِيارِ مِنَ اللّه ، لَم يَتَمَنَّ أ نّهُ في غَيرِ الحالِ التي اختارَها اللّه ُ لَهُ .
جوخدا وند عالم کے حسن انتخاب پر بھروسہ کرتا ہے وی اس حالت کےبدلنے کی تمناہرگز نہیں کرتا جس کو خدا وند عالم نےاس کے لیےمنتخب کیا ہے.
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۰۶ / ۶
11-كيفَ يكونُ المؤمنُ مؤمنا وهو يَسخَطُ قِسمَةُ ويُحَقِّرُ مَنزِلَتَهُ والحاكِمُ علَيهِ اللّه ُ ؟!
وہ مؤمن کیسے سچا مومن ہو سکتا ہے جو اپنی قسمت سے نا خوش ہو, اپنے مرتبہ اور منزلت کو حقیر اور ناچيزسمجھتا ہو جب کہ اس کا حاکم خود خدا وند عالم ہے؟.
بحارالانوار : ۴۳ / ۳۵۱ / ۲۵
12-ما نَقَصَتْ زكاةٌ مِن مالٍ قَطُّ .
زكات ، هرگز مال میں کمی کا باعث نہیں ہوتی
بحارالانوار : ۹۶ / ۲۳ / ۵۶
13-لرجل جاءَ إلَيهِ يَستَشِيرُهُ في تَزويجِ ابنَتِهِ : زَوِّجْها مِن رَجُلٍ تَقِيٍّ ، فإنّهُ إن أحَبَّها أكرَمَها وإن أبغَضَها لَم يَظلِمْها .
امام حسن عليه السلام نے اس شخص کے جواب میں فرمایا جس نےآپ سے اپنی بیٹی کی شادی کے بارے میں مشورہ لیا تھا اس کی شادی متقی اور پرہیز گارشخص سے کرواس لئے کہ اگر وہ اس سے محبت کرے گا تو اس ک ااحترام کرے گا اور اگر کسی وجہ سے اس سے نفرت بھی کرے گا تو اس پر ظلم نہیں کرے گا
مكارم الأخلاق : ۱ / ۴۴۶ / ۱۵۳۴
14-إنّ المسألَةَ لا تَحِلُّ إلاّ في إحدى ثلاثٍ : دَمٍ مُفجِعٍ ، أو دَينٍ مُقرِحٍ ، أو فَقرٍ مُدقِعٍ .
دست سوال دراز کرنا جائز نہیں ہے سوائے تین صورتوں کے خوں بہا اور دیت دینے کے لئے جس کی ادائیگی سخت ہو پریشان کر دینے والے قرض کو ادا کرنےکے لئےاور جان لیوا فقر و فاقہ سے نجات پانے کے لئے
15-الإعطاءُ قَبلَ السُّؤالِ مِن أكبَرِ السُّؤدُدِ .
سوال سے پہلے عطا کردینا سب سے بڑی بزرگواری اور سرداری ہے.
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۱۳ / ۷پری
16-وقد سُئلَ عنِ الشَّجاعةِ : مُواقَفَةُ الأقرانِ ، والصَّبرُ عِندَ الطِّعانِ .
امام حسن عليه السلام سے سوال کیا گیا کہ شجاعت کیا ہے آپ نے جواب دیا اپنوں کے حق کے لئے قیام کرنا,ان کا ساتھ دینا اور جنگ کے وقت صبر پائیداری سے کام لینا .
تحف العقول : ۲۲۶
17-في جَوابِ رَجُلٍ قالَ لَهُ : إنّي مِن شِيعَتِكُم : يا عبدَ اللّه ، إن كُنتَ لَنا في أوامِرِنا و زَواجِرِنا مُطِيعا فقد صَدَقتَ ، وإن كُنتَ بخِلافِ ذلكَ فلا تَزِدْ في ذُنوبِكَ بدَعواكَ مَرتَبةً شَرِيفَةً لَستَ مِن أهلِها ، لا تَقُلْ : أنا مِن شِيعَتِكُم ، ولكن قُل : أنا مِن مُوالِيكُم ومُحِبِّيكُم ومُعادِي أعدائكُم ، وأنتَ في خَيرٍ وإلى خَيرٍ .
امام حسن عليه السلام نے اس شخص کے جواب میں فر مایا جس نے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں آپ کا شیعہ ہوں "اے اللہ کے بندے اگر تو ہمارے احکام پر عمل اور ہم نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے باز رہنے کا پابند ہے تو اپنے دعوے میں سچا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایسا دعوی کرکے اپنے گناہوں میں اضافہ نہ کر شیعہ ہونا بہت بڑا شرف اور مرتبہ ہےتو اس کا اہل نہیں ہے لہذا یہ نہ کہہ کہ می آپ کے شیعوں میں سے ہوں بلکہ کہہ کہ میں آپ کے محبوں اور غلاموں میں سےہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اس طرح تو خیر و نیکی پر ہوگا.
تنبيه الخواطر : ۲ / ۱۰۶
18-قد أكثَرَ مِن الهَيبهِ الصامِتُ
.خاموش انسان کا رعب اور اس کی ہیبت زیادہ ہوتی ہے
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۱۳ / ۷
19-نِعمَ العَونُ الصَّمتُ في مَواطِنَ كثيرَةٍ وإن كُنتَ فَصِيحا .
خاموشی بہت سی جگہوں پر بہترین معاون اور مددگار ہے چاہے تمھاری گفتگو فصاحت سے مالامال ہی کیوں نہ ہو.
معاني الأخبار : ۴۰۱ / ۶۲
20-المَصائبُ مَفاتيحُ الأجرِ .
مصيبتیں حصول اجر و ثواب کے لئے کلید کی حیثیت رکھتی ہیں .
أعلام الدين : ۲۹۷
21-صاحِبِ النّاسَ مِثلَ ما تُحِبُّ أن يُصاحِبوكَ بهِ .
لوگوں کے ساتھ اس طرح رہو پیش آؤ جیسے چاہتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ پیش آئیں .
أعلام الدين : ۲۹۷
22-بِالعَقلِ تُدرَكُ الدّارانِ جَميعا ، ومَن حُرِمَ مِنَ العَقلِ حُرِمَهُما جَميعا .
عقل کے ذریعہ دونوں جہان کی سعادتیں حاصل ہوتی ہیں اور جس کے پاس عقل نہیں ہو تی وہ دونوں جہان کی سعادتوں سے محروم رہتا ہے .
كشف الغمّه : ۲ / ۱۹۷
23-لَمّا سُئلَ عَنِ العَقلِ : التَّجَرُّعُ لِلغُصَّةِ حَتّى تَنالَ الفُرصَةَ .
امام حسن عليه السلام سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے آپ نے فر مایا غم واندوہ کے گھونٹ پیتے رہنا یہاں تک کہ موقعہ ہاتھ آسکے .
معاني الأخبار : ۲۴۰ / ۱
24-لَمّا سَألَهُ أبوهُ عليه السلام عَنِ العَقلِ : حِفظُ قَلبِكَ ما استَودَعتَهُ .
امام حسن عليه السلام سے جب ان کے والد نے عقل کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے عرض کیا کہ دل ان باتو ں کو محفوظ رکھے جو اس میں ودیعت کی گئی ہیں .
معاني الأخبار : ۴۰۱ / ۶۲
25-العاداتُ قاهِراتٌ ، فَمَنِ اعتادَ شَيئا في سِرِّهِ وخَلَواتِهِ ، فَضَحَهُ في عَلانِيَتِهِ وعِندَ المَلَأِ .
عادتیں مجبور کر دینے والی ہوتی ہیں جو شخص تنہائی اور خلوت میں کسی چیز کا عادی ہوتا ہے وہ عادت اسے مجمع میں سب کے سامنے رسوا کر دیتی ہے .
تنبيه الخواطر : ۲ / ۱۱۳
26-الغَفلَةُ تَركُكَ المَسجِدَ، وطاعَتُكَ المُفسِدَ .
غفلت یہ ہے کہ( نماز کے لئے) مسجد جانا ترك كردو اور فساد پھیلانے والےشخص کی پیروی کرو.
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۱۵ / ۱۰
27-إنّ اللّه َ عز و جل بِمَنِّهِ ورَحمَتِهِ لَمّا فَرَضَ عَليكُمُ الفَرائضَ لم يَفرِضْ علَيكُم لِحاجَةٍ مِنهُ إلَيهِ ، بَل رَحمَةً مِنهُ إلَيكُم (علَيكُم) لا إلهَ إلاّ هُو ، لَِيميزَ الخَبيثَ مِن الطَّيِّبِ ، ولِيَبتَلِيَ ما في صُدورِكُم ، ولُِيمَحِّصَ ما في قُلوبِكُم .
خداوند عالم نے اپنی رحمت اور احسان سے جب تمھارےاوپر فرائض عاید کئے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اسے ان کی کوئی ضرورت ہے بلکہ اس نے تمھارے حال پر رحم کرتے ہوئے انھیں عاید کیا ہےتاکہ خبیث اور پاکیزہ افراد کو ایک دوسرے سے الگ کر سکے اور جو کچھ تمھارے سینوں میں ہے اس کی آزمائش کرسکےاور تمھارے دلوں کوخالص کر سکے.
بحارالانوار : ۲۳ / ۹۹ / ۳
28-التفكُّرُ حَياةُ قَلبِ البَصيرِ .
غور و فکر کرناِ صاحب بصيرت کے قلب کی زندگی ہے
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۱۵ / ۱۱
29-اُوصيكُم بتَقوَى اللّه وإدامَةِ التَّفَكُّرِ ؛ فإنَّ التَّفَكُّرَ أبو كُلِّ خَيرٍ واُمُّهُ .
میں تمھیں تقوى الهى او ر غور وفکر جاری رکھنے کی وصیت کرتا ہوں اس لئے کہ غور و فکر ہر خیر و نیکی کاباپ اور اس کی ماں ہے .
تنبيه الخواطر : ۱ / ۵۲
30-اعلمْ أنَّ مُروَّةَ القَناعَةِ والرِّضا أكثرُ مِن مُرُوّةِ الإعطاءِ .
آگاہ رہو کہ قناعت اور اس پر رضا و خوشنو دی جیسی جواں مردانہ صفت عطا و بخشش کی جواں مردانہ صفت سے بڑی ہے .
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۱۱ / ۶
31-لا يَنبغي لِمَن عَرَفَ عَظَمَةَ اللّه أن يَتَعاظَمَ، فإنّ رِفعَةَ الذينَ يَعلَمونَ عَظَمَةَ اللّه أن يَتَواضَعُوا ، و (عِزَّ) الذينَ يَعرِفُونَ ما جَلالُ اللّه أن يَتَذَلَّلُوا (لَهُ) .
جو شخص عظمت پر ور دگار سے واقف ہو اس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے کو بڑا سمجھے جو لوگ عظمت الہی سے آگاہ ہوتے ہیں ان کی سر بلندی اسی میں ہے کہ اپنےخالق کے تئیں متواضع رہیں اور جو لوگ جلالت پر ور دگار سے آگاہ ہیں ان کے لئے عزت یہی ہے کہ وہ اپنے کواپنے خالق کے سامنے ذلیل سمجھیں .
بحارالانوار : ۷۸ / ۱۰۴ / ۳
32-فِي المَائدةِ اثْنَتَا عَشرَةَ خَصْلَةً يَجِبُ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أنْ يَعْرِفَهَا : أرْبَعٌ مِنْها فَرْضٌ ، وَ أرْبَعٌ سُنَّةٌ ، وأرْبَعٌ تأدِيبٌ . فَأمَّا الفَرْضُ : فَالمَعْرِفَةُ ، وَالرِّضَا ، وَالتَّسْمِيَةُ ، وَالشُّكْرُ . وَأمَّا السُّنَّةُ : فَالوُضُوءُ قَبْلَ الطَّعَامِ ، والجُلُوسُ عَلَى الجَانِبِ الأيْسَرِ ، والأكْلُ بِثَلاثِ أصَابِعَ . وَلَعْقُ الأصَابِعِ . وَأمّا التَّأدِيبُ : فَالأكْلُ مِمَّا يَلِيكَ ، وَتَصْغِيرُ اللُّقْمَةِ ، وَتَجْوِيدُ المَضْغِ ، وَقِلّةُ النّظَرِ فِي وُجُوهِ النّاسِ .
دستر خوان کےلئے بارہ احکام ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان پر واجب ہے ان میں سے چار فرض ہیں, چار سنت اور چار آداب ہیں
سب سے پہلے فرائض: معرفت, رضاو خشنودی ,خدا لا نا م لینا اور شکر بجا لانا پھر سنت کھانے سے پہلے وضو کرنا, بائیں پہلو پر بیٹھنا, تین انگلیوں سے کھانا اور انگلیوں کو چاٹنا اور آداب اپنے سامنے سے کھانا, چھوٹے چھوٹے لقمے کھانا,اچھی طرح چبانا اور کھاتے وقت لوگوں کے چہرہ کی طرف کم دیکھنا.
بحارالانوار : ۷۳ / ۳۰۵ / ۲۳
33-عَلِّمِ النّاسَ وتَعَلَّم عِلمَ غَيرِكَ ، فَتَكونَ قَد أتقَنتَ عِلمَكَ وعَلِمتَ ما لَم تَعلَم
لوگوں کو تعلیم دو اور دوسروں سے علم سیکھو اس طرح تم اپنے علم کو مستحکم کرنے والے ہوگے اور تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ تم کیا نہیں جانتے ہو .
كشف الغمّة : ۲ / ۱۹۷ .
34-لا يَعزِبُ الرَّأيُ إلاّ عِندَ الغَضَبِ .
اچھی رأى سوائے غصہ کی حالت کے کبھی برباد نہیں ہوتی .
نزهة الناظر : ۷۲ / ۱۴
:
35-قَطعَ العِلمُ عُذرَ المُتَعَلِّمينَ .
علم کے حصول نےعلم حاصل کرنے والوں کے عذر کو توڑدیاہے
تحف العقول : ۲۳۶ .
36- يا بنَ آدمَ ، إنّكَ لم تَزَلْ في هَدمِ عُمرِكَ مُنذُ سَقَطتَ مِن بَطنِ اُمِّكَ ، فَخُذْ مِمّا في يَدَيكَ لِما بَينَ يَدَيكَ ؛ فإنّ المؤمنَ يَتَزوَّدُ ، و الكافِرَ يَتَمتَّعُ
اے آدم کے بیٹے ! تو جب سے اپنی ماں کے شکم سے باہر آیا ہے اپنی عمر کی بربادی میں لگا ہے لہذاجو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اس سے اس چیز کے لئے فائدہ اٹھا جو تیرے سامنے ہے مومن اپنے زاد سفر میں اضافہ کرتا ہے اور کافر صرف لذتوں کے حصول میں لگا رہتا ہے .
بحار الأنوار : ۷۸ / ۱۱۲ /۶.
37- أسلَمُ القُلوبِ ما طَهُرَ مِن الشُّبُهاتِ .
سب سے صحیح و سالم دل وہ ہو تے ہیں جو شبهات سے پاك ہوں.
ـ
38- لمّا سُئلَ عنِ الكَرَمِ ـ :
الابتِداءُ بالعَطيَّةِ قَبلَ المَسألةِ ، و إطعامُ الطَّعامِ في المَحْلِ .
امام حسن عليه السلام نےکرم اور بزرگواری کیا ہے اس سوال کے جواب میں فرمایاکہ "سوال سے پہلے عطا کرنا اور بر محل کھانا کھلانا
بحار الأنوار : ۷۸ / ۱۰۲ /۲
:
39- مَن عَدَّدَ نِعَمَهُ مَحَقَ كَرَمَهُ .
جو اپنے احسانوں کو گنائے وہ اپنی نیکی اورکرم کو ضائع کر دیتا ہے.
بحار الأنوار : ۷۸ / ۱۱۳ /۷.
40-الإمام الحسن عليه السلام ـ في ذَمِّ الدُّنيا ـ :
الرّاغِبُ فيها عَبدٌ لِمَن يَملِكُها .
امام حسن عليه السلام نے دنیا کی مذمت میں فرمایا ہے دنیا کی خواہش رکھنے والا دنیا کا غلام ہو جاتا ہے ـ
كنز العمّال : ج ۱۶ ص ۲۱۴ ح ۴۴۲۳۶
انتخاب و ترجمہ :
سید حمید الحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
Add new comment