امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و الہ وسلم سے نقل فرمایا کہ " إنّ إبليسَ رَضِيَ مِنكُم بالمُحَقَّراتِ ؛ (۱) ابلیس حقیر گناہوں کی انجام دہی پر بھی اپ سے راضی و خوشنود ہوجاتا ہے ۔
البتہ یہ فارمولہ سب کے سلسلے میں نہیں ہے اور ہرجگہ کارگر بھی نہیں ہے، بہت سارے افراد کے سلسلہ میں ابلیس چھوٹے گناہوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ انہیں بڑے گناہوں کی طرف بلاتا ہے اور وه بھی آسانی کے ساتھ اس کی اطاعت کرتے ہیں، مگر مومنین میں جو گناہان کبیرہ سے دامن بچاتے ہیں ان کی جانب سے چھوٹے موٹے گناہوں کی انجام دہی پر ابلیس راضی و خوشنود ہوجاتا ہے۔
ابلیس، وسوسہ کے ذریعہ مومنین کو چھوٹے موٹے گناہوں کی جانب طرف بلاتا ہے تاکہ مومنین کو گناہوں کی انجام دہی کا عادی بنا سکے ، جب چھوٹے موٹے گناہوں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی اور مومنین بھی گناہیں انجام دینے کے عادی ہوچکے ہوں گے تب انہیں گناہان کبیرہ انجام دینے میں کوئی عار و قباحت نہ ہوگی ۔
امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا کہ "وَ قَالَ عليه السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِهِ صَاحِبُهُ ؛ (۲) بدترین گناہ وہ گناہ ہے جسے گناہگار ( گناہ انجام دینے والا) چھوٹا سمجھے۔
امام رضا عليه السلام نے بھی اس مقام فرمایا " اَلصَّغائِرُ مِنَ الذُّنـُوبِ طُـرُقٌ اِلَى الْكَبائِرِ ومَنْ لَمْ يَخَفِ اللّهَ فِى الْقَليلِ، لَمْ يَخَفْهُ فِى الْكَثيرِ؛ (۳) چھوٹے گناہیں بڑے گناہوں کا مقدمہ اور وسیلہ ہیں، جو انسان چھوٹے گناہ کی انجام دہی میں خدا سے خوف نہ کرے گا وہ بڑے گناہوں کی انجام دہی میں بھی خدا سے نہ ڈرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: بحارالأنوار : 73/363/93
۲: حکمت 340 نهج البلاغه
۳: بحار الأنوار : 73/353/55 .
Add new comment