امام زین العابدین علیه‌السلام کے ذاتی خصوصیات (۴)

Tue, 12/21/2021 - 07:23
امام سجاد

گھر کے اندر کا کردار

امام زین العابدین علیہ السلام اپنے گھر والوں کے ساتھ دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ مہربان،ان کے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والے اور ان کے درمیان کسی طرح کی اونچ نیچ اور تفریق کے قائل نہیں تھے۔

اس سلسلہ میں آپ کا یہ قول آپ کی اہم یادگار کے طورپر محفوظ ہے کہ آپ نے فرمایا ’’لئن ادخل الی السوف وماھی دراھم ابتاع بھالعیالی لحما وقد قرموااحب الی من ان اعتق نسمۃً‘‘’’اگرمیرے اہل و عیال گوشت کے شوقین ہوںاور میں بازار جائوںمیرے پاس کچھ درہم ہوں تو مجھے اپنے اہل و عیال کے لئے گوشت خرید نا اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک غلام آزاد کروں۔‘‘ (۱)

امام علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے لئے رزق کی تلاش میں ہر روز صبح جلدی گھر سے نکلتے تھے آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ امام - نے جواب دیا:’’میں دوسروں کو صدقہ دینے سے پہلے اپنے اہل و عیال کے خرچ اور انکے ساتھ حسن سلوک کا انتظام کرتاہوں۔‘‘ اس کے بعد آپ نےفرمایا:’’جو رزق حلال کا طلب کرے وہ گویا خدا کی طرف سے اس کے اہل وعیال کے لئے صدقہ (کار خیر)ہوتاہے۔‘‘(۲)

آپ گھر کے کاموں میں بھی اپنے اہل وعیال کا ہاتھ بٹاتے تھے اور اپنے ذاتی کام کسی کے حوالہ نہیں کرتے تھے اوراپنی ذات سے متعلق تمام اموربذات خود انجام دیتے تھے اس سلسلہ میں کسی سے بھی کوئی مدد نہیں لیتے تھے۔

والدین کے ساتھ برتاؤ

امام زین العابدین علیہ السلام اپنے سلسلہ میں اپنی ان مادر گرامی کے نیک برتائو کے صلہ میں ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کرتے تھے جنہوںنے آپ کو پالا تھا، ان کے ساتھ آپ کے نیک برتائو کا عالم یہ تھا کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے لوگوں نے آپ پر اعتراض کرتے ہوئے یہ سوال کیا آپ لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ نیک برتائو اور سب سے زیادہ صلۂ رحم کرنے والے ہیں تو اپنی ماں کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھاتے ؟اس وقت امام - نے ایسا جواب دیا کہ دنیانے اس سے پہلے ادب کا ایسا نمونہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آپ نے فرمایا:’’میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا ہاتھ اس چیز کی طرف نہ بڑھ جائے جس پر پہلے ان کی نظر پڑ چکی ہو اور وہ اسے اٹھا نا چاہتی ہوں اس طرح میں ماں کی طرف عاق قرار پاجائوں ۔

والدین کے ساتھ آپ کے حسن سلوک کے سلسلہ میں ان کے حق میں آپ کی وہ عظیم دعا ہے جس میں اسلام کی مقدس تعلیمات کا مکمل نقشہ دیکھا جاسکتا ہے ۔یہاں پر اس ہمیشہ باقی رہنے والی دعا کا ایک حصہ ذکر کیا جارہاہے:

’’خدایا!میرے والدین کو بھی خصوصیت کے ساتھ اپنی بارگاہ میں کرامت اور رحمت عطا فرما۔ اے بہترین رحم کرنے والے۔۔۔مجھے ان تمام امور کا الہام فرمادے جو والدین کے لئے مجھ پر واجب کئے ہیں اور ان سب کا مکمل علم میرے پا س جمع کردے اور ان پر عمل کرنے کے راستے پر لگا دے اور مجھے توفیق دے کہ جس علم کی بصیرت تو نے عطا فرمادی ہے اسے اپنی زندگی میں بھی نافذ کرسکوں۔۔۔ خدایا! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ماں باپ سے اس طرح ڈروں کہ جیسے کسی جابر سلطان سے ڈرا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اس طرح مہربانی کروں جس طرح ایک مادر مہربان اپنی اولاد کے ساتھ مہربانی کرتی ہے۔اور پھر میری اس اطاعت کو اور میرے اس نیک برتائو کو میری آنکھوں کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار بنا دے جتنا خواب آلود آنکھوں میں نیند کا خمار خوشگوار ہوتاہے۔ اور اس سے زیادہ باعث سکون بنا دے جتنا تشنہ لب کے لئے جرعۂ آب باعث سکون ہوتا ہے تاکہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم کروں اور ان کی رضا کو اپنی رضا سے آگے رکھوں،ان کے کئے ہوئے احسانات کو زیادہ سمجھوں چاہے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہوں اور اپنی خدمات کو قلیل تصور کروں چاہے وہ کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔

خدایا !ان کے سامنے میری آواز کودبا دے، میرے کلام کو خوشگوار بنا دے ، میرے مزاج کو نرم کردے، میرے دل کو مہربان بنادے ، مجھے ان کا رفیق او را ن کے حال پر شفیق قرار دے۔ خدایا!انہیں میری تربیت کی جزا مرحمت فرما اور جس طرح انھوںنے بچپنے میں میری حفاظت کی ہے تو بھی ان کی حفاظت فرما۔۔۔اور خدایا ! مجھے ان کی یاد سے غافل نہ ہونے دینا نہ نمازوں کے بعد ، نہ رات کے لمحات میں اور نہ دن کی ساعات میں ۔خدایا!محمدؐ وآل محمد ؐپر رحمت نازل فرما اور میری دعائے خیر کے سبب میرے والدین کو بخش دے اور میرے ساتھ ان کی نیکیوں کے بدلے ان کی حتمی مغفرت فرما۔ ‘‘

اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ

اپنی اولاد کے ساتھ ا مام زین العابدین - کابرتائو اسلام کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا منفرد اور ممتاز نمونہ ہے۔ آپ نے ان کے نفوس میں خیر وخوبی کے کے بیج بوئے اور ان میں عظیم اصلاحی فکر کو بیدار کیا۔ اس طرح آپ کی تربیت کے نتیجہ میں آپ کی اولادعلم و عمل اور اسلام کی راہ میں جہاد کے لئے سب سے زیادہ درخشاں فکر کے حامل انسانوں کے طور پر سامنے آئی۔

آپ کے فرزند ارجمند امام محمد باقر -ائمۂ مسلمین میں سب سے زیادہ مشہور تھے اور آپ کو سب سے زیادہ علم وحکمت عطا کیا گیاتھاجس کو آپ نے لوگوں تک اس طرح پہنچا یا کہ باقرالعلوم یعنی علوم کا سینہ چاک کرنے والے شمار ہوئے۔

اس طرح آپ کے فرزند عبداللہ باہر فضائل و کمالات اور بلند علمی درجات کے اعتبارسے تمام علماء اسلام میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ آپ کے ایک اور بیٹے جناب زید علماء اسلام میں سب سے زیادہ صاحب جلالت تھے ۔آ پ نے بہت سے علوم مثلاً فقہ،حدیث،تفسیر اور کلام وغیرہ میں نئے نئے ابواب قائم کئے ۔ آپ نے مظلوموں اور کمزوروں کے حقوق کی پاسبانی کا بیڑا اٹھا یااور اپنے اوراس عظیم انقلاب کی قیادت کی جس نے اسلامی سماج کے سیاسی میدانوں میں ہلچل مچا دی اور امو ی حکومت کے زوال میں انتہائی مثبت اور فعال کردار ادا کیا۔(۳)

امام نے اپنی اپنی اولاد کے لئے بعض وصیتوں کوان کی زاد راہ کے طور پر چھوڑاتاکہ اس کو لے کر وہ زندگی کے مختلف راستوں میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں:

۱۔امام علیہ السلام نے فرمایا’’اے میرے فرزند پانچ لوگوں پر نظر رکھو ہرگز ان کی ہمنشینی نہ کرنا ان سے گفتگو نہ کرنا اور ان کے ساتھ سفر نہ کرنا۔

آپ کے ایک فرزندنے سوال کیا وہ کون لوگ ہیں ؟امام - نے فرمایا:’’جھوٹے کی ہمنشینی سے بچو وہ سراب کی مانند ہے جو دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دورکرکے دکھاتا ہے ،فاسق کی ہمنشینی سے بچو وہ تمہیں ایک لقمہ یا اس سے بھی کم پر بیچ دے گا، کنجوس انسان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بچو وہ اس وقت مالی مدد کے سلسلہ میں تمہیں تنہا چھوڑ دے گا جب تمہیں اس کی شدید ضرورت ہوگی، احمق اور بیوقوف کی دوستی سے پرہیز کرو وہ تمہیں فائدہ پہونچانا چاہے گا لیکن نقصان پہونچا دے گا۔ قطع رحم کرنے والوںیعنی اپنے عزیزوں سے رابطہ توڑنے والوں کی دوستی سے دور رہو میں نے کتاب اللہ قرآن مجید میں اس کو لعنت کا مستحق پایا ہے ۔

۲۔آپ ؑنے فرمایا :’’اے میرے فرزند! مصیبتوں پر صبر کرو اور کسی کے حقوق پامال نہ کرو۔اپنے کسی بھائی کو ایسی چیز پر مجبور نہ کرو جس کا نقصان اس کے لئے تمہارے فائدہ سے زیادہ ہو۔‘‘(۴)

۳۔امام ؑ نے فرمایا: ’’خدایا وند عالم جب تمہارے حق میں میرے روئیے سے راضی نہیں ہوتا تو مجھے وصیت و نصیحت فرماتا ہے اور جب راضی ہوتا ہے تو مجھے تمہارے حق میں خوفزدہ کرتاہے۔ د نیا میں اپنی اولاد کے لئے سب سے بہتر باپ وہ ہے جس کی محبت اسے اولاد کے حق میں کوتاہی کا شکار نہ بنا دے اور باپ کے لئے سب سے بہتر اولاد وہ ہے جس کی کوتاہی اسے عاق نہ کردے۔‘‘(۵)

غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ برتاؤ

اپنے غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ امام زین العابدین - کا برتائو نرمی ،مہربانی اور انس و محبت کی ایک زندہ مثال ہے ۔آپ ان کے ساتھ اپنی اولاد جیسا برتائو کرتے تھے اور ان کو آپ کے دامن میں وہ سکون ملتا تھا جو انہیں اپنے والدین کے یہاں بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔آپ کسی غلطی پر کسی غلام یا کنیز کو کوئی سزا نہیں دیتے تھے۔(۶)

آپ کا ایک غلام تھا جس کوآپ نے دومرتبہ آواز دی اس نے کوئی جواب نہیں دیا تیسری مرتبہ آپ نے انتہائی مہربانی کے ساتھ اس کو آواز دی’’ یا بنی اما سمعت صوتی‘‘’’اے میرے بیٹے کیا تم نے میری آواز نہیں سنی ؟‘‘اس نے جواب دیا کیوں نہیں۔ امام نے اس سے کہا ’’لم لم تجبنی‘‘’’تم نے جواب کیوں نہیں دیا ؟اس غلام نے کہا اس لئے کہ مجھے آپ کا خوف نہیں تھا امام - وہاں سے حمد خدا کرتے ہوئے باہر نکل گئے آپ کی زبان مبارک پر تھا ’’الحمد للہ الذی جعل مملوکی یامننی‘‘’’تمام تعریفیں اس خدا کی جس نے میرے غلاموں کو مجھ سے امن و امان میں رکھا اور خوف وہراس میں مبتلا نہیں کیا۔‘‘(۷)

تحریر: سید حمید الحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: بحارالانوار،ج/۴۶،ص/۶۷،بحوالہ کافی ،ج/۲،ص/۱۲))

۲: الکامل المبرد،ج/۱،ص/۳۰۲،شذرات الذہب،ج/۱،ص/۱۰۵،مناقب آل ابی طالب ، ج/۴، ص/۱۷۶، بحوالہ امالی نیشا پوری

۳: حیاۃ الامام زین العابدین ؑ ،دراسۃ وتحلیل ،ص/۵۵،۵۶

۴: البیان والتبین ،ج/۲،ص/۷۶،العقد الفرید،ج/۳،ص/۸۸

۵: القعد الفرید،ج/۳،ص/۸۹

۶: اقبال الاعمال،ج/۱،ص/۴۴۳تا۴۴۵،تلعکبری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عجلان سے انھوںنے امام صادقؑ سے روایت کی ہے اور اسی سے بحارالانوار، ج/۴۶، ص / ۳ ۰ ۱تا۱۰۵،ج/۹۸،ص/۱۸۶تا ۱۸۷میں نقل ہے

۷: الارشاد ص/۱۴۷،مناقب آل ابی طالب،ج/۴،ص/۱۷۱،تاریخ دمشق ،ج/۳۶،ص/۱۵۵

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50