رضائے الٰہی کی تلاش
امام زین العابدین -فقراء کے ساتھ حُسن سلوک میں صرف خوشنودی پروردگارپر نظر رکھتے تھے۔ آپ کے عطیات وصدقات میں ذرہ برابربھی دنیا کی کسی اور غرض کادخل نہیں ہوتا تھا۔
زہری کا بیان ہے کہ میں جاڑوں کی ایک سرد رات میں علی ابن الحسین - کو اپنی پیٹھ پر آٹا لاد کرلے جاتے ہوئے دیکھا میں نے آپ سے دریافت کیا فرزند رسولؐ یہ کیا ہے ؟آپ نے جواب دیا:’’میرا سفر کا ارادہ ہے لہٰذا اس کے لئے یہ اپنی زاد راہ ایک محفوظ جگہ منتقل کرنا چاہتاہوں۔‘‘
زہری نے عرض کیا میرایہ غلام آپ کا سامان وہاں پہنچادے گا۔ امام ؑ نے اس کوگوارہ نہیں کیا۔زہری نے خود انتہائی اصرار کے ساتھ گویا خوشامدکی کہ اچھامیں خود ہی اسے اٹھا کر وہاں پہنچا دوں گا۔ لیکن امام - نے اپنے اصرار پرقائم رہے اور فرمایا: ’’لیکن میں اس چیز کو الگ کرنا کرنا نہیں چاہتاجو مجھے سفر میں نجات دینے والی ہے اور مجھے اپنے مقصد تک بہتر انداز میں پہنچا سکتی ہے ۔میں خدا کے لئے تم سے چاہتا ہوں کہ تم جس کام کے لئے جارہے تھے جائو۔‘‘
زہری امام کے پاس سے واپس چلا گیا اور کچھ روز بعد دوبارہ امام سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس کا گمان تھا کہ امام ؑ سفر پر چلے گئے ہوںگے ۔ وہ امام ؑ کے مقصد کو نہیں سمجھ سکا تھا لہٰذاعرض کیا فرزند رسولؐ مجھے سفر کے آثاردکھائی نہیں دے رہے ہیں۔امام -نے جواب دیاـ:’’اے زہر میری مراد وہ نہیں تھی جو تم سمجھ رہے تھے بلکہ میری مرادموت کا سفر تھا اورمیں اس کے لئے تیار ی کررہا تھا۔ موت کی تیاری حرام سے محفوظ رکھتی ہے اورنیک راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔(۱)
عزت نفس اور جوانمردی
امام زین العابدین علیہ السلام کے صفات میں سے ایک اہم صفت عزت نفس اور جوانمردی تھی جو آپ کو آپ کے والد بزرگوار سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام سے میراث میں ملی تھی۔ جنہوں نے اپنے زمانے کی طاغوتوں طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیااوران کو یہ کہہ کر للکارا:’’خدا کی قسم میں ذلیلوں کی طرح تمہارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا اور تمہاری غلامی برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘(۲)
امام حسین علیہ السلام کی یہ بہترین خصوصیت امام زین العابدین علیہ السلام کی شخصیت میں مجسم ہوگئی جس کی زندہ مثال آپ کا یہ قول ہے:’’مااحب ان لی بذل نفسی عمر نعم‘‘’’ میں سرخ بالوں والے اونٹوں کے عوض بھی ذلت نفس برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘(۳)
آپ نے عزت نفس کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’من کرمت علیہ نفسہ ھانت علیہ الدنیا‘‘ ’’جس کی نظر میں اس کے نفس کی عزت اور اس کا احترام ہوتا ہے اس کی نظر میں دنیا حقیر ہوجاتی ہے ۔‘‘(۴)
مورخین کا بیان ہے کہ ایک شخص نے ناحق آپ کے بعض حقوق غصب کرلئے امام - مکہ میں تھے اس زمانے میں ولید ابن عبدالملک کرسی خلافت پر قابض تھا ۔حج کے زمانے میں وہ بھی مکہ پہنچا آپ سے کہا گیا کہ اگر آپ ولید سے کہیں تو آپ کا حق واپس مل جائے گا۔آپ نے ایسا جواب دیا جس کو عزت نفس اور جواں مردی کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا:
’’وائے ہو تم پر کیا حرم خدا میں غیر خدا سے سوال کروں میں دنیا کا سوال اس کے خالق تک سے کرناپسند نہیں کرتا اورمجھے اس سے بھی شرم محسوس ہوتی ہے تو بھلا اپنی جیسی مخلوق سے کیسے اس کے بارے میں سوال کرسکتا ہوں۔(۵)
آپ کی عزت نفس کا عالم یہ تھا کہ آپ نے قرابت رسولؐ کی بنا پر عطا کیا گیا ایک درہم بھی کبھی نہیں کھایا۔ (۶)
زہد
امام زین العابدین - کے زمانے میں مشہور تھا کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ زاہد ہیں یہاں تک کہ جب زہری سے لوگوں میں سب سے بڑے زاہد کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے علی ابن الحسین ؑ کا نام لیا ۔
آپ نے ایک سائل کو دیکھا جو گریہ کررہاتھا آپ اس سے سخت متاثر ہوئے اور کہنے لگے : ’’اگر اس کے ہاتھ میں پوری دنیا بھی ہوتی اورگرجاتی تب بھی اس کو اس پرگریہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔‘‘(۷)
سعید ابن مسیب بیان کرتے ہیں علی ابن الحسین - ہرجمعہ کو مسجد النبی میں لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتےتھےان کودنیا کےسلسلہ میں زہد اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے اور ان کلمات کے ساتھ آخرت کے لئے اعمال انجام دینےکی ترغیب دیتےتھےآپ فرماتے تھے :
’’اے لوگوں خدا سے ڈرو اور جان لو کہ تمہیں اس کی بارگاہ میں پلٹ کر جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اے ابن آدم تیری موت سب سے جلدی تیری طرف آنے والی ہے اور تیری طرف ایسی خبر نے رخ کیا ہے جو عنقریب تجھے پالے گی گویا تمہاری موت کا وقت آگیا ہے اور ملک الموت نے تمہاری روح قبض کرلی ہے تم قبر میں اکیلے رہ گئے ہو اور اس کے بعد دوبارہ تمہاری روح کو تمہارے جسم میں
واپس کردیا گیا ہے اور خدا کی طرف سے دو ملک منکرونکیر تم سے سوال کرنے اور تمہارا سخت امتحان لینے کے لئے حاضر ہوگئے ہیں۔۔۔لہٰذا اے بندگان خدا خداسے ڈرو اور آگاہ ہو کہ خدا وند عالم نے دنیا کے مال و زر اور اس کی چمک دمک کو کبھی بھی اپنے کسی بھی ولی کے لئے پسند نہیں فرمایا اور ان کو اس دنیا کی چند روزہ ظاہری چمک دمک اور اس کے جھوٹے حسن وجما ل میں گرفتار ہونے کی ترغیب نہیں دی۔
خدا وند عالم نے دنیا اور اس کی نعمتوں کو اس لئے خلق کیا تاکہ بندوں کا امتحان لے سکے کہ ان میں آخرت کے لئے عمل کے اعتبار سے بہتر کون ہے ۔
خدا کی قسم اس نے عقل وہوش والوں کے لئے دنیا میں مثالیں قائم کی ہیں اور ان کو اپنی نشانیاں دکھائی ہیں۔خدا کے علاوہ کسی اور کی کوئی قوت و طاقت نہیں ہے لہٰذا دنیا کی جن چیزوں کے بارے میں خدا نے زہد کا حکم دیا ہے ان سے زہد اختیار کرو۔
دنیا کی خوبصورتی اور دلربائی پر اس شخص کی طرح فدا نہ ہوجائو کہ جس نے اس کو اپنی منزل اور اپنا وطن قرار دے لیا ہے۔ جبکہ یہ دنیا کوچ کاگھر ہے اور یہاںسے جانا یقینی ہے۔ یہ عمل کی جگہ ہے لہٰذا اس میں زیادہ سے زیادہ اعمال کی زاد راہ مہیا کرلو قبل اس کے کہ اس کا زمانہ ختم ہوجائے اور خدا کی طرف سے اس کو ویران کرنے کا حکم آجائے ۔خدا ہمیں اور تمہیں اس بظاہر حسین و خوبصورت دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنے والوں اور آخرت میں ثواب کی امید لگانے والوں میں سے قرار دے اس لئے کہ ہم اسی کے لئے ہیں ۔‘‘(۸)
خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز
امام علی ابن الحسین علیہ السلام کا زین العابدین اور سید سجاد کے لقب سے مشہور ہونا آپ کے خد اکی ذات سے لولگانے اور صرف اسی سے وابستہ ہر کر اس سے راز و نیاز کرنے کی بہترین مثال ہے ۔
اس کے علاوہ صحیفۂ سجادیہ کی دعائیںبھی آپ کے صرف خدا سے وابستہ ہوجانے کے سلسلہ میں ہمارے اس دعوے کی بہترین دلیل ہیں ۔ان دعائوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امام -اپنی زندگی کے مختلف امور میں کس طرح اپنے پروردگار کی ذات سے وابستہ تھے اور صرف اسی کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے تھے۔
اگرہم صحیفۂ سجادیہ کی دعاؤں پرسرسری نظر ڈالیں اور اس کے مختلف موضوعات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ آپ نے ان دعائوں میں جن اہم موضوعات اور مسائل کا تذکرہ کیا ہے ان کی بلند نظری تک آپ کے علاوہ کسی عام انسان کا طائر فکر بھی نہیں پہنچ سکتا۔آپ نے زندگی کے امور سے متعلق کوئی ایک گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے بارے میں اپنے معبود سے سوال اوراس کے ساتھ رازونیاز نہ کیا ہو۔
امام علیہ السلام خدا کی محبت میں مکمل طور پر مجذوب ہوگئے تھے اور اس کی ذات بابرکت کے سلسلہ میں اخلاص کی سب سے عظیم منزل پر فائز تھے۔جس کااندازہ آپ کے سیرت وکردار پر نظر ڈالنے کے بعد بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے ہر عمل میں آپ کے اس عظیم خلوص کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔
مورخین نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ ایک راستہ سے گذر رہے تھے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ایک انتہائی پست فطرت شخص کے دروازہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ امام ؑ جلدی سے اس شخص کی طرف بڑھے اور اس سے فرمایا ’’اما یقعدک علی باب ھذاالمترف الجبار‘‘’’تمہیں اس سرپھرےظالم و جابر کے دروازہ پر کس چیز نے لابٹھایا ہے؟ ‘‘اس شخص نے جواب دیا : غربت و افلاس اور فقروفاقہ نے۔ آپ نے اس سے فرمایا:’’قم فرشک الی باب خیر من بابہ والی رب خیر لک منہ ‘‘’’ اٹھو میں تمہیں ایسے دروازہ کی طرف ہدایت کرتاہوں جو اس کے دروازہ سے کہیں بہترہے میں تمہیں اس پروردگار کی ہدایت کرتاہوں جوتمہارے لئے اس سے بہت بہتر ہے۔‘‘
وہ شخص اٹھ کر آپ کے ساتھ مسجد نبوی میں آیا آپ نے اس کو نماز وں، تلاوت قرآن اور خدا سے حاجت طلب کرنے، اس کے ساتھ رازونیاز کرنے اور صرف اس کے مضبوط اور ناقابل مسخر قلعہ میں پناہ لینے کی تعلیم دی۔(۹)
تحریر: مولانا حمیدالحسن سیتاپوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: علل الشرائع، ج/۱،ص/۲۷،بحارالانوار،ج/۴۶،ص/۶۵،۶۶
۲: وقعۃ الطف ،ص/۲۰۹)الکافی،ج/۲،ص/۱۰۹،۱۱۱،
۳: الخصال،ج/۱،ص/۲۳،بحارالانوار،بحوالہ کافی،ج/۷۱،ص/۴۰۶
۴:بحارالانوار،ج/۷۸،ص/۱۳۵
۵: بحارالانوار،ج/۴۶،ص/۶۴،بحوالہ علل الشرائع،ج/۱،ص/۲۷۰، مطبوعہ بیروت
۶: مجالس ثعلب ،ج/۲،ص/۴۶۲،حیات امام زین العابدین،القرشی ج/۱،ص/۸۱،
۷: مناقب آل ابی طالب ، ج/۴،ص/۱۷۵،نافع سے روایت ہے جس میں درھماً کے بدلے شیئا ً کا تذکرہ ہے ۔
۸: کشف الغمہ ،ج/۲،ص/۳۱۸ ،بحوالہ نژالدرآبی ،فصول المہمہ،ص/۱۹۲
۹: الکافی،ج/۸،ص/۷۲تا۷۶ ،تحف العقول،۲۴۹تا۲۵۲، حیات امام زین العابدین -،دراسہ و تحلیل،ج/۱،ص/۹۳
Add new comment