ایام فاطمیہ کے موقع پر سرزمین ھندوستان کے مختلف صوبوں از جملہ کشمیر، یوپی، بمبئی ، دلی ، بہار ، بنگال اور علی پور میں مجالس فاطمی کا اہتمام گیا میں جس میں مقررین نے سیرت حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا پر روشنی ڈالی۔
جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے ایام فاطمیہ کے سلسلے میں مرکزی امام باڑہ بڈگام میں اس سلسلے کی ایک پروقار مجلس عزاء منعقد ہوئی۔
جس میں ہزاروں عقیدمندوں نے شرکت کی اس موقع پر کہی سرکردہ ذاکرین نے مرثیہ خوانی کی اور ان جگر سوز حالات کا تزکرہ کیا جن کا سامنا کرتے ہوئے خاتون جنت ؑ دنیائے فانی سے رخصت ہوئی۔
انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن الموسوی الصفوی نے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے سیرت و کردار کی وضاحت کی انھوں نے حضرت زہراؑ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی غیر معمولی محبت و عقیدت کو اس سیرت و کردار اور عظمت و منزلت کا نتیجہ قرار دیا جس سے خداوند عالم نے فاطمۃ الزہراؑ کو سرفراز فرمایا۔
انھوں نے کہا کہ جناب سیدہؑ نے اسلام کی تبلیغ و دعوت اور تحفظ وترویج میں اپنے پدر بزرگوار ؐ کی اس حد تک معاونت کی کہ رسول اکرمؐ نے اپنی بیٹی کو ام الابیہا اور بعضتہ منی جیسے القاب سے نوازا۔
حسن الموسوی الصفوی کہا کہ حضرت زہراؑ کو خراج عقیدت نذر کرنے کا حقیقی طریقہ یہ ہے کہ ہم خواتین کو وہ حقوق ادا کرنے میں کوئی بخل نہ کریں جو حقوق انھیں اسلام نے دے رکھے ہے اور خواتین ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کریں جن کا انھیں اسلام نے پابند کر رکھا ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا کی استقامت اور پائیداری بہترین نمونہ عمل
سرسی سادات کے شرقی محلہ میں ہونے والی خمسہ مجالس سے مولانا سید حیدر عباس رضوی نے خطاب کیا۔
اپنے آخری بیان میں مولانا موصوف نے قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیت 155 پر گفتگو کے دوران حاضرین سے بیان کیا کہ شہزادی کونین نے سقیفہ کے بعد گھر پر حملہ کے لئے آنے والوں کی غیرت و حمیت کو للکارا اور فرمایا کہ کیا تم ہمیں شیطانی حزب سے ڈراتے ہو جبکہ تمہیں بخوبی معلوم ہے کہ شیطانی حزب نہایت کمزور و ناتواں ہے۔
بھوک کی شدت میں جناب زہرا نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور مال کی کمی،مال کا لوٹا جانا یا پھر مال کی قربانی میں بھی آپ کی سیرت بہترین پیغامات کی حامل ہے۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے حدیث نبوی کے ضمن میں تاکید کی کہ ہر غصہ منفی نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی غصہ کا اظہار واجب بھی ہوتا ہے جیسے مقدسات دین کے دفاع کی خاطر غصہ برملا کیا جانا چاہئے۔اب جبکہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب بعض شر پسند افراد کی شرارتوں کے سبب خطرہ میں ہے ایسے میں ہر انصاف پسند انسان کا فریضہ ہے کہ ایسے افراد سے ہوشیار رہے تا کہ نفرتوں کا دور ختم ہو سکے اور ہم اسی محبت کے ساتھ سکھ چین شانتی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں جس کے لئے ہم دنیا بھر میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے جنت البقیع کی ویرانی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عالمی تنظیموں سے اپیل کی کہ آل سعود اگر اس کی آبادی کاری نہیں کرتے تو ہمیں اسے آباد کرنے کا موقع دیا جائے۔
خطیب مجلس نے ان خمسہ مجالس میں سیرت وکردار فاطمی کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی اور عزادروں سے گزارش کی کہ آپ فقط خطباء،علماء اور واعظین کے بیانات سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان کتب کا مطالعہ بھی کریں جو بی بی دوعالم کی سیرت طیبہ کے سلسلہ میں لکھی گئی ہیں۔
شہزادی کونین کے فرامین بالعموم اور آپ کا خطبہ فدک بالخصوص ہمیں پڑھتے رہنا چاہئے اس خطبہ فدک کو سن کر نا جانے کتنے افراد دیگر مکاتب فکر سے دامن اہلبیت سے وابستہ ہو چکے ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ ڈاکٹر عبد المنعم کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے کتاب کا عنوان ہی قرار دیا بنور فاطمہ اھتدیت۔
ان مجالس کے بانی جناب نقی زیدی صاحب نے بتایا کہ آخری مجلس عزا میں سوز خوانی کے فرائض جناب اجمل صاحب اور ان کے ہمنوا نے انجام دئیے۔ساتھ ہی مجالس میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔
جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں جلسہ سیرت کا انعقاد
شہزادی فاطمہ زہرا (س) کی اس سے بڑی فضیلت کیا ہوگی کہ رسول(ص) جیسا باپ اسے اپنی ماں کہے
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومانہ شہادت کے موقع پر جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب گولہ گنج میں جلسہ سیرت منعقد ہوا۔
مولوی محمد تقی متعلم جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے جلسہ سیرت کا آغاز کیا۔
بعدہ مولوی نجیب حیدر متعلم جامعہ امامیہ نے خطبہ فدک کے اقتباسات بیان کئے۔
مولوی سید علی محمد نقوی متعلم جامعہ امامیہ اور مولوی علی محمد معروفی متعلم جامعہ امامیہ نے بارگاہ صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
مولوی محمد صادق متعلم جامعہ امامیہ اور مولوی محمد محسن متعلم جامعہ امامیہ نے تقاریر کی۔
مولانا منظر علی عارفی نے اپنی تقریر میں کہا کہ شہزادی فاطمہ زہرا (س) کی اس سے بڑی فضیلت کیا ہوگی کہ رسول (ص) جیسا باپ اسے اپنی ماں کہے ۔
مولانا سید نقی عسکری صاحب رکن مجلس انتظام تنظیم المکاتب نے طلاب کو موعظہ کرتے ہوئے خطبہ فدک کے بعض اہم نکات بیان کئے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاکیزہ کلمات کی تشریح کی ۔
مولانا منظر علی عارفی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے رسول اللہ (ص) کی حدیث ’’فاطمہؑ ام ابیہا (اپنے باپ کی ماں) ہیں۔‘‘ کی روشنی میں بیان کیا کہ کسی بیٹی کے لئے اس سے بڑی فضیلت کیا ہو گی کہ اس کا باپ اسے اپنی ماں کہے وہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا باپ جو رحمۃ للعالمین ہیں۔
انہوں نے بیان کیا کہ جامعہ امامیہ میں شہادت و ولادت کے ایام میں جلسہ سیرت منعقد ہوتا ہے جنمیں طلاب کرام اسی معصوم سے متعلق تقاریر کرتے ہیں اور اساتذہ انکی اصلاح کرتے ہیں، تربیت کرتے ہیں تا کہ ایک بہترین خطیب اور مبلغ بنیں اور آگے چل کر دین کی خدمت کریں۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ الوارف سے کسی نے سوال کیا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے سلسلہ میں دو تاریخیں ۱۳ جمادی الاول اور ۳ جمادی الثانی بیان کی گئی ہیں ان میں سے کون سی تاریخ صحیح ہے؟
آپ نے فرمایا: آپ کو اس سے کیا لینا کہ کون سی تاریخ صحیح ہے ۔ خدا وند عالم چاہتا ہے کہ لوگ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کریں، زیادہ سے زیادہ انکی عزاداری کریں اور انکے فضائل بیان کریں۔
Add new comment