خلاصہ: صداقت اور سچائی کی قرآن کریم اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں تاکید ہوئی ہے۔
سچائی ایسی اچھی صفت ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے، اسی لیے جو آدمی سچ بولتا ہے لوگ اس سے محبت کرتے ہیں، بلکہ جھوٹ بولنے والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اس پر اعتماد کرتے ہیں، اس سے مشورہ لیتے ہیں اور اس کی عزت و احترام کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ آدمی جھوٹ نہیں بولتا، اگر اس سے مشورہ لیا جائے تو دل کے اخلاص اور سچی زبان سے مشورہ دے گا۔
سچائی کیونکہ انسان کے باطن کو اس کے ظاہر کے مطابق بنا دیتی ہے تو لوگ سچے آدمی کے پاک باطن کی وجہ سے اس کا احترام کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ شخص جو کچھ زبان سے بول رہا ہے اس کے دل میں اور حقیقت میں وہی بات ہے، جبکہ جھوٹ بولنے والے آدمی کا ظاہر اس کے باطن کے خلاف ہوتا ہے، اس کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان سے کچھ اور بولتا ہے، اسی لیے لوگوں کی نظر میں اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور اگر لوگ اس کا احترام یا اس پر بھروسہ کرتے ہیں تو اس میں کئی دیگر وجوہات ہوتی ہیں، مثلاً:
۱۔ احترام کرنے والا آدمی، اس کے جھوٹے ہونے سے مطلع نہیں ہے۔
۲۔ احترام کرنے والے کی نظر میں سچ اور جھوٹ کا آپس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
۳۔ اس کے تکبر، بدزبانی اور بدمزاجی کے خوف سے اس کا احترام کرتا ہے۔
۴۔ اپنے ذاتی مقاصد کی وجہ سے اس کا احترام کرتا ہے۔
۵۔ جلد اعتماد کرنے والا، سادہ مزاج اور صرف ظاہر کو دیکھنے والا آدمی ہے۔
۶۔ قرآن اور احادیث اور دینی مسائل سے ناواقف ہے، جس کی وجہ سے وہ سچ کے فائدوں اور جھوٹ کے نقصانات سے بے خبر ہے۔
اس لیے کہ سچ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "النَّجاةُ مَع الصَّدقِ"، "نجات سچائی کے ساتھ ہے"۔ [غررالحکم، ص۴۷، ح۸۴۹]
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[غررالحکم و دررالکلم، آمدی]
Add new comment