خلاصہ: مومن کو خوش کرنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اس عمل کو فرائض کے بعد اللہ کی بارگاہ میں سب سے افضل عمل بیان فرمایا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے منقول ہے: " ... لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْأَعْمَالِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بَعْدَ الْفَرَائِضِ أَفْضَلَ مِنْ إِدْخَالِ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِن" (بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۴۷)، "اللہ عزوجل کی بارگاہ میں فرائض کے بعد اعمال میں سے کوئی عمل، مومن کو خوش کرنے سے افضل نہیں ہے"۔ سب مومنین کو ایک ہی طریقہ سے خوش نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ مالی مشکلات کا شکار ہیں ان کے مالی اخراجات میں مدد کرنا ان کی خوشی کا باعث ہے، جو شخص جسمانی مرض میں مبتلا ہے اس کی احوالپرسی اور دیکھ بھال اس کی خوشی کا باعث ہے، جو گھرانہ، گھریلو جھگڑوں کا شکار ہے ان کی آپس میں صلح کروانا اور اختلاف کو ختم کرنا ان سب کی خوشی کا باعث بنے گا، جو شخص کسی مالی یا جانی نقصان کا شکار ہوگیا ہے، اس کی ہمدردی کرنا، اسے دلاسہ دینا اور ممکنہ حد تک اس کی مدد کرنا اس کی خوشی کا سبب بنے گا۔ مقروض کے قرض کی دائیگی میں تعاون کرنا اس کی خوشی کا باعث ہے، مگر یہ سب کام تقریباً مادی اور جسمانی ضروریات ہیں، لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ معنوی اور روحانی کاموں میں خوش کیا جائے۔ جو شخص معنوی درجات میں بلند ہونے کے لئے کوشاں ہے اس کی خوشی بھی الگ طرح کی ہوتی ہے۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ أَسْتَغْفِرُكَ مِنْ كُلِّ لَذَّةٍ بِغَيْرِ ذِكْرِكَ"(بحارالانوار، ج۹۱، ص۱۵۱) ، "اور میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں ہر اس لذت سے جو تیرے ذکر کے علاوہ تھی"۔ معنویت کے میدان میں محنت کرنے والے شخص کو خوش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لئے راستہ فراہم کیا جائے تا کہ وہ اللہ کی عبادت کرسکے اور اس کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹائی جائیں۔ ایسے مومن کو خوش کرنے کے لئے کسی شرط و شروط کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس کو شرعی طریقہ کے علاوہ کسی طریقہ سے خوش نہیں ہونا اور اس کی خوشی، اللہ کی عبادت اور ذکرِ پروردگار میں ہے اور ایسی خوشی ہمیشہ مطلوب اور اچھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بحارالانوار، مجلسی، دار إحياء التراث العربي، بیروت، ۱۴۰۳ق)
Add new comment