خلاصہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے جو اخلاقیات کے سلسلے میں احادیث نقل ہوئی ہیں ان میں سے چند کو یہاں پر ذکر کرتے ہوئے، ان کی مختصر وضاحت کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
اخلاقیات کا انسانی زندگی میں اتنا اہم کردار ہے کہ جس کے بغیر نہ دنیا میں سکون رہتا ہے اور نہ آخرت کی کامیابی ممکن ہے۔ کیونکہ آدمی جتنا بھی عابد ہو لیکن اگر اچھے اخلاق کا زیور اس کے وجود پر نہ ہو تو وہ عبادت بھی ضائع ہوجائے گی۔
اہل بیت (علیہم السلام) نے مختلف اخلاقی عناوین پر گفتگو فرمائی ہے، جن میں سے ایک حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) ہیں، آپؑ سے جو اخلاقی احادیث نقل ہوئی ہیں، ان میں سے چند کا یہاں پر تذکرہ کرتے ہوئے، بعض کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں:
اخلاص
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أفْضَلُ الْعِبادَۃِ الاْخْلاصُ"[1]، "سب سے زیادہ بافضیلت عبادت، اخلاص ہے"۔
وضاحت: اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ نیت کو غیراللہ سے صاف کردیا جائے اور عمل کو صرف اللہ کے لئے بجالایا جائے۔ خالص اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی کسی دوسری چیز سے ملاوٹ نہ ہو۔ اخلاص کے کئی درجات ہیں اور اخلاص کے ساتھ عبادت اور نیک اعمال کو انجام دینے کے کئی فائدے ہیں۔ اخلاص کی نشانیاں اور علامات میں سے بعض یہ ہیں: ظاہر و باطن اور زبان و کردار کا ایک جیسا ہونا، اللہ کے علاوہ ہر چیز سے ناامیدی اور اپنے گناہ کے علاوہ کسی چیز سے نہ ڈرنا، اللہ کے علاوہ دوسروں سے اپنے اعمال کی تعریف سننے کی توقع نہ رکھنا۔
محبوبیت کے اسباب
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "ثَلاثُ خِصال تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الاْنْصافُ فِي الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِي الشِّدِّةِ، وَ الاْنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلي قَلْب سَليم"۔[2] "تین صفات ہیں جن کے ذریعے محبت جذب ہوتی ہے: (لوگوں سے) معاشرت میں انصاف کرنا اور مشکلات میں (ان سے) ہمدردی کرنا اور قلب سلیم سے بہرہ مند ہونا"۔
چار غلطیوں کے نتائج
حضرت امام جواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "تَأخيرُ التَّوبَةِ إغترارٌ وَ طُولُ التَّسويفِ حَيَرةٌ، وَ الاِعْتِذارُ عَلَی اللهِ هلکةٌ وَ اَلإصرارُ عَلَى الذَّنبِ أمنٌ لِمَكرِ اللّه «فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ»“[3]،[4] توبہ میں تاخیر کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے، اور (کاموں میں) آج کل کرنا، سرگردانی ہے، اور اللہ کے سامنے عذر تراشی کرنا ہلاکت ہے، اور گناہ پر ڈٹے رہنا، اللہ کی تدبیر سے مطمئن رہنا ہے "اور اللہ کی تدبیر سے صرف گھاٹے میں رہنے والے مطمئن رہتے ہیں"۔
نعمت کا شکر
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نِعمَةٌ لا تُشكَرُ كَسَيِّئةٍ لا تُغفَرُ"[5]، "جس نعمت کا شکر ادا نہ ہو، وہ ایسے گناہ کی طرح ہے جو معاف نہیں ہوتا"۔
نیز آپؑ فرماتے ہیں" :لايَنقطِعُ المزيدُ مِن اللهِ حَتّي يَنقَطِعَ الشُّكْرُ مِنَ العِبادِ"[6]، "اللہ کی طرف سے (نعمتوں میں) اضافہ رکتا نہیں، یہاں تک کہ بندوں کا شکر رک جائے"۔
وضاحت: عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شکر زبان سے ہوتا ہے، جبکہ شکر صرف زبان تک محدود نہیں بلکہ شکر کی تین قسمیں ہیں: پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ نعمت دینے والا کون ہے اور اس کی طرف توجہ کریں، دوسرا مرحلہ زبانی شکر ہے، تیسرا مرحلہ عملی شکر ہے، یعنی اس بات پر غور و خوض کریں کہ ہر نعمت ہمیں کس مقصد سے عطا کی گئی ہے اور اس نعمت کو اسی مقصد تک پہنچنے کے لئے استعمال کریں، اگر ایسا نہ کیا تو کفران نعمت اور ناشکری کی ہے۔ مثال کے طور پر آنکھیں جو اللہ تعالی کی اتنی عظیم نعمت ہیں، اللہ نے کیوں عطا فرمائی ہیں؟ اس لیے کہ لوگ ان آنکھوں سے اللہ کی مخلوقات کو دیکھیں اور ان میں غور و فکر کریں، واقعات کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں، جن چیزوں کو دیکھنا ثواب کا باعث ہے، ان کو دیکھ کر اللہ تعالی سے ثواب حاصل کریں، لیکن آنکھوں سے گناہ کرنے والا آدمی اللہ کی اس بڑی نعمت کی ناشکری کرتا ہوا نہ اس بات پر توجہ کرتا ہے کہ اس کو یہ نعمت دینے والا کون ہے تو کیسے نعمت دینے والے کی معرفت حاصل کرے گا، نہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے دو آنکھیں صحیح و سلامت عطا فرمائی ہیں، نہ ان آنکھوں کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے جس مقصد کے لئے اللہ نے خلق کیا ہے تو آنکھوں سے جو عمل ممکن ہے، ان آنکھوں سے عملی شکر بجا نہیں لاتا۔ اسی طرح اللہ کی عطا کی ہوئی تمام نعمتوں کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کو یہ نعمتیں دے کر پروردگار نے آزاد نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اسے ان نعمتوں کے بدلہ میں کچھ ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ لہذا نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ نعمتیں چھن جائیں گی اور اگر آدمی شکر کرتا رہے تو نعمتیں بڑھتی رہیں گی اور اس میں اضافہ کا سلسلہ رکتا نہیں مگر یہ کہ آدمی شکر کرنا روک دے۔
خواہشات کی پیروی کا برا نتیجہ
حضرت امام جواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "رَاكِبُ الشَّهَوَاتِ لَاتُسْتَقَالَ لَهُ عَثْرَةٌ"[7]، "جو شخص شہوات کی سواری پر سوار ہوجائے، اس کی لغزشیں ناقابل تلافی ہیں"۔
وضاحت: جب انسان شہوت پرستی میں پڑجائے اس کی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اور عقل کی حکومت برکنار ہوتے ہوئے شہوت حکمران بن جاتی ہے اور جب انسان کے اعمال کی باگ ڈور عقل سے چھن جائے اور خواہشات کے قبضہ میں آجائے تو اس شخص کے لئے ہر طرح کی بدبختی یا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "الْعَقْلُ وَ الشَّهْوَةُ ضِدَّانِ وَ مُؤَيدُ الْعَقْلِ الْعِلْمُ وَ مُزَيِّنُ الشَّهْوَةِ الْهَوَى وَ النَّفْسُ مُتَنَازَعَةٌ بَينَهُمَا فَأَيهُمَا قَهَرَ كَانَتْ فِى جَانِبِهِ"[8]، "عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو نفسانی خواہش زینت دینے والی ہے اور نفس ان دو کے درمیان کشمکش میں ہوتا ہے تو ان دونوں میں سے جو غالب ہوجائے، نفس اس کے پاس ٹھہر جاتا ہے"۔
برے آدمی کی ہمنشینی سے پرہیز
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إيّاكَ و مُصاحَبَةَ الشِّرِّيرِ؛ فإنّهُ كالسَّيفِ المَسلولِ يَحسُنُ مَنظَرُهُ و يَقبَحُ أثَرُهُ ."[9]، "شریر آدمی سے ہمنشینی کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ غلاف سے نکالی ہوئی تلوار کی طرح خوبصورت اور بد اثر ہے"۔
وضاحت: انسان کے وجود میں خالق کائنات کی طرف سے ایک صفت جو قرار دی گئی ہے، وہ کسی سے دوستی اور ہمنشینی اختیار کرنا ہے، جس طرح دیگر اخلاقی اچھی اور بری صفات میں یہ کیفیت پائی جاتی ہے کہ حق اور باطل، صحیح اور غلط، ہدایت اور گمراہی کے راستے پائے جاتے ہیں، اسی طرح اس انسانی فطرت میں بھی یہ کیفیت پائی جاتی ہے کہ انسان کسی دوسرے آدمی کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیسے انسان کی ہمنشینی اختیار کرنی چاہیے اور کیسے آدمی کی ہمنشینی سے پرہیز کرنی چاہیے؟ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) اس نورانی کلام میں شریر آدمی کی ہمنشینی اختیار کرنے سے منع فرماتے ہیں کیونکہ ایسے آدمی میں کچھ ظاہری دلکش کام اور باتیں دکھائی دیں گی جسے انسان دیکھ کر اس سے دوستی کر لے گا اور اس کی ہمنشینی اختیار کرلے گا، مگر اس کی حقیقت اور باطن سے غافل ہے کہ اس کا ضمیر کتنا ناپاک ہے، اس کا دل کتنا شرارتوں سے رچا ہوا ہے اور مختلف حالات کے بدلنے کے موقع پر اس کی بری صفات منظر عام پر آجاتی ہیں تب واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تو تلوار کی طرح کاٹ دینے والا ہے جبکہ ظاہری طور پر خوبصورت لگ رہا تھا اور اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی کئی مثالیں کھل کھل کر سامنے آئیں گی۔ جیسا کہ حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے فرزند سے فرمایا: "من قارن قرین السوء لا یسلم"[10] ، "جو شخص برے آدمی کے ساتھ رہے، وہ امان میں نہیں رہتا"۔
نتیجہ:
اخلاقی اقدار ایسی صفات ہیں جن کو اپنانے سے آدمی انسانی کمالات کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے، معصومین حضرات (علیہم السلام) جن میں سے ایک عظیم ہستی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) ہیں، آپؑ عالم انسانیت کی کامیابی اور ہدایت پانے کے لئے انتہائی جد و جہد کرتے رہے اور مختلف طریقوں سے لوگوں کی راہنمائی کرتے رہے جن میں سے ایک طریقہ آپؑ کے حکمت آمیز فرامین ہیں جو اخلاقیات کے شعبہ میں گمراہی کی اندھیری رات میں ہدایت کا چراغ ہیں، جن پر آدمی عمل کرتے ہوئے دوسرے کے لئے بھی نمونہ عمل بن سکتا ہے۔
...................................................
حوالہ جات
[1] بحارالانوار، ج 67، ص 245، ح 19۔
[2] ميزان الحكمہ ، ج2، ص414۔
[3] دانشنامه امام جواد علیه السلام ، ج1، ص175۔
[4] سورہ اعراف، آیت 99۔
[5] سیرالائمه، ج 4، ص 171۔
[6] تحفالعقول، ص 480۔
[7] بحارالانوار، ج 67، ص 78، ح 11۔
[8] غررالحكم، ح448۔
[9] بحار الانوار : 24/198/74۔
[10] الکافی، ج۲، ص642، ح9۔
Add new comment