خلاصہ: دین اسلام کی اہم ترین ارکان میں سے نیک اخلاق ہے، اخلاقی اقدار میں سے ایک اہم خُلق، تقوا ہے، روزہ کا تقوا سے گہرا تعلق ہے، قرآن کریم کی نظر میں روزہ کا مقصد تقوا کا حصول ہے، نیز جیسے تقوا کے مختلف درجات ہیں اسی طرح روزہ کے بھی متعدد درجے ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اخلاقی اقدار کا روزہ پر اثر
دین اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن، اخلاق ہے۔ قرآن کریم اور روایات کی روشنی میں اور تاریخ کے شواہد کی بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو ترقی دینے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کے اسباب میں سے آپ کا نیک اخلاق تھا۔
جیسا کہ خداوند متعال کا سورہ آل عمران آیت ۱۵۹ میں ارشاد ہے: " فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ" پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔
نیز پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی بعثت کا مقصد اخلاقی اقدار کو منزل تکمیل تک پہنچانا بتایا ہے کہ فرمایا: "إنّما بُعِثْتُ لاُتَمِّمَ مَكارِمَ الأخْلاقِ" [1]، "میں تو اعلٰی اخلاقی اقدار کو ہی مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں"۔
احکام الہی عموماً عبودیت کے بعد اخلاق اور لوگوں کا آپس میں اچھا سلوک برتنے پر زور دیتے ہیں۔ مثلاً حج جو عبادی اعمال میں سے ایک اہم عمل ہے، اس میں وحدت اور ایک دوسرے کی مدد کرنا دکھائی دیتا ہے۔ نماز جو دین اسلام کا ستون ہے، جب جماعت کھڑی ہوتی ہے تو اس میں نظم و ضبط پایا جاتا ہے اور نیز سورہ حمد میں ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ پر چلنے کی ہدایت طلب کرنا، لوگوں سے تعلق رکھنے کی مثالیں ہیں
ماہ رمضان کا روزہ جو انسان کو مشکلات کے مقابلہ میں صبر اور پائداری، درگذر کرنا اور جانثاری کرنا اور غریب لوگوں کا خیال رکھنا، اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اخلاقی اقدار پر خاص توجہ رکهنا چاہیے۔
لہذا ماہ مبارک رمضان کی برکات میں سے ایک اہم برکت اخلاقیات کی ترقی ہے۔ جب روزہ دار آدمی اپنی بھوک اور پیاس کو برداشت کرسکتا ہے تو یقیناً اپنے غصہ کو بھی پی سکتا ہے، اپنی زبان کا خیال رکھ سکتا ہے اور غیبت، تہمت، گالی گلوچ جیسے گناہوں سے بھی پرہیز کرسکتا ہے۔ شیطانی سرکش خواہشات کا مقابلہ کرتا ہوا پائدار رہ سکتا ہے اور روزہ دار شخص ماہ رمضان سے فیضیاب ہوکر اپنے تمام اعضا و جوارح اور سوچوں پر قابو پا سکتا ہے۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سی چیز ہمیں شیطان سے دور کرسکتی ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: "روزہ اس کے چہرہ کو سیاہ کردیتا ہے اور صدقہ اس کی پشت کو توڑ دیتا ہے"۔[2]
اخلاقی اقدار میں سے ایک بنیادی خُلق، تقوا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تقوا کو جگہ جگہ پر مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے جس سے تقوا کی حددرجہ اہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
روزہ تقوا کی عملی مشق
انسان چونکہ مادی اور جسمانی پہلو کے علاوہ معنوی اور روحانی پہلو کا بھی حامل ہے تو ان دونوں پہلووں کے کمال تک پہنچنے کے لئے خاص طریقہ کار ہیں، معنوی پہلو کی پرورش اور طاقت کا ایک طریقہ تقوا اور پرہیزگاری ہے، یعنی اگر انسان اپنے آپ کو معنوی پہلو کے لحاظ سے ترقی دینا چاہے اور مطلوبہ طہارت و کمال تک پہنچنا چاہے، تو اسے اپنی نفسانی خواہشات پر غالب ہونا پڑے گا اور کمال کے راستے میں موجودہ رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے ہٹانا ہوگا اور جسمانی لذتوں اور شہوتوں میں مصروفیت سے بچنا پڑے گا۔
تقوا ہر اس آدمی کی زندگی کا لازمہ ہے جو عقل کے حکم کے تحت زندگی بسر کرتا ہوا سعادتمندانہ حیات تک پہنچنا چاہتا ہے۔ دینی اور الہی تقوا یہ ہے کہ انسان ان اصول پر عمل پیرا ہو جن کو دین نے زندگی کے لئے مقرر کیا ہے اور گناہ سے اپنے آپ کو بچائے۔ انسان کو اپنی روح میں ایسی کیفیت اور طاقت پیدا کرنی پڑے گی جو اسے گناہ سے سامنا ہوتے ہوئے، گناہ سے محفوظ کرلے یہاں تک کہ تقوا کی طاقت کے ذریعے اپنے نفس اور نفسانی خواہشات پر غلبہ پاجائے اور اپنے دامن کو اللہ کی معصیت اور گناہ کرنے سے آلودہ نہ کرے۔
قرآن مجید کی نظر میں ہر عبادت کی قبولیت کی شرط تقوا اور پرہیزگاری ہے، جہاں ارشاد الہی ہے: "إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ"[3]، "خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے"۔
تقوا کے لئے موثر اور مفید ایک عمل، روزہ ہے جس کی مشق کرتے کرتے انسان اس بات کو سیکھ لیتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ اپنی لگام کو ہوا و ہوس کے ہاتھوں میں نہ تھمادے اور یہ بالکل عین تقوا ہے۔ روزہ کا مقصد، تقوا کا حصول ہے، قرآن کریم میں پروردگار کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"[4]، "صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ"۔
چونکہ روزہ کا مقصد تقوا حاصل کرنا ہے تو انسان روزہ رکھنے سے کچھ چیزوں سے پرہیز کرنے اور بعض لذتوں سے محروم رہنے کی مشق کرتے ہوئے حرام سے پرہیز کرنے اور اللہ کے احکام کو بجالانے پر تیار ہوجاتا ہے۔ جب انسان کا گناہ سے سامنا ہوتا ہے تو وہاں تقوا اختیار کرنا چاہیے اور تقوا اختیار کرنا پختہ ارادہ کے بغیر ممکن نہیں، روزہ کا ہدف چونکہ تقوا کا حصول ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ایسی چیز ہے جو انسان کو گناہ سے بچاتی ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّار"[5]، "روزہ (جہنم کی) آگ کے سامنے ڈھال ہے"۔
تقوا اور روزے کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ تقوا کے معنی اپنے آپ کو بچانا اور روکنا ہے، اور روزہ کا مطلب بھی امساک اور ایک طرح کا اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ان کا آپس میں فرق یہ ہے کہ تقوا، ہر اس چیز سے نفس کو بچانا ہے جو انسان کے نفس اور تقوا کو نقصان پہنچاتی ہے، لیکن روزہ خاص مقرر کردہ چیزوں سے پرہیز ہے جو روزہ کے باطل ہونے کا باعث ہیں اور روزہ دار کو تقوا تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ اس تعریف کے مطابق تقوا اور اس کے مصادیق کی حد، روزہ کی حد سے زیادہ وسیع ہے۔ لہذا ان چیزوں سے بچنا جو روزہ کو باطل کرتی ہیں، تقوا تک پہنچنے کا سبب ہے۔
اس بات کے پیش نظر کہ روزہ کے ذریعے انسان کو تقوا حاصل کرنا ہے تو اگر روزہ کی حالت میں ایک طرف سے انسان کو کھانے پینے اور دیگر کچھ کاموں سے منع کیا گیا ہے تو دوسری طرف سے ایسے اعمال بجالانے کا حکم بھی دیا گیا ہے جو ایمان و عمل کی مضبوطی کا باعث ہیں، جیسے واجب و مستحب نمازیں پڑھنا، قرآن کریم کی تلاوت، صلوات، استغفار، دعا و مناجات، غریبوں کی مدد، صلہ رحمی، اخلاق کو اچھا کرنا اور کئی دیگر اعمال۔
روزہ اور تقوا کے درجات
جیسے تقوا کے مختلف درجات اور مراتب ہیں اسی طرح روزہ کے بھی متعدد درجات ہیں جو بعض علماء نے بیان کیے ہیں:
۱۔ عام روزہ: جس میں کھانے پینے اور روزہ کی دیگر مبطلات سے پرہیز ہے اور اس سے صرف فریضہ ادا ہوتا ہے۔
۲۔ خاص روزہ: جن چیزوں سے عام روزہ میں پرہیز کی جاتی ہے، ان کے علاوہ بدن کے مختلف حصے جیسے آنکھ، کان، زبان وغیرہ بھی گناہ سے پرہیز کریں کہ ایسے روزہ کی افطار، گناہ اور معصیت کا ارتکاب ہے۔
۳۔ خاص الخاص روزہ: سابقہ دو درجات کے علاوہ روزہ دار اپنے دل کو بھی دنیاوی سوچوں اور برے اخلاق میں مصروف ہونے سے بچائے اور اس روزہ کا حاصل، غیراللہ سے رخ موڑ لینا ہے۔ روزہ کا یہ درجہ انبیاء، صدیقین اور مقرّبین سے مختص ہے اور اس روزہ کا ثمرہ لقاء الہی کے جمال کا نظارہ ہے اور ایسے مقام تک پہنچنا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کی سوچ میں آیا ہے۔[6]
نتیجہ: اخلاقی اقدار کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ دین اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اخلاقی اقدار میں سے ایک اہم خُلق تقوا ہے اور ماہ مبارک رمضان میں روزہ دار کیونکہ کھانے پینے اور بعض دیگر کاموں سے پرہیز کرتا ہے تو اس مہینہ میں اللہ کی فرمانبرداری کی مشق ہوتی ہے، جب انسان روزہ رکھتا ہے تو چونکہ قرآن کی نظر میں روزہ کا مقصد تقوا کا حصول ہے تو روزہ رکھنے سے انسان تقوا کی منزل پر فائز ہوسکتا ہے، تقوا کی منزل پر پہنچنے سے اخلاقی اقدار کا اہم رکن حاصل ہوجاتا ہے، نیز روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر جن اعمال کی تاکید کی گئی ہے، ان کو بجالانے سے انسان کی روح ترقی کی منازل کو طے کرتی ہے۔ لہذا ماہ رمضان اخلاقی اقدار خاص طور پر تقوا کی ترقی کا بہترین موقع ہے، اس مبارک مہینہ میں یہ ترقی حاصل کرنے کے لئے اس مہینے کے مختلف اعمال اور فضائل اور نیز جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان کا مطالعہ اور ان پر غور و خوض کرنا انتہائی اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] میزان الحکمہ، ری شہری، ج۳، ص479۔
[2] مستدرك الوسائل، محدث نورى، ج 7، ص 154، مؤسسه آل البيت، قم.
[3] سورہ مائدہ، آیت 27۔
[4] سوره بقره، آيت 183.
[5] الكافي : 4/62/1.
[6] معراج السعادة، ملا احمد نراقى، ص 784 - 785 سے اقتباس۔
Add new comment