خلاصہ: یزید نے ولید بن عتبہ کو خط لکھ کر تین افراد سے بیعت لینے کا حکم دیا، ان تین افراد میں سے ایک حضرت امام حسین (علیہ السلام) تھے۔ ولید نے رات کے وقت گفتگو کے بہانے سے بلوایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
60 ہجری کو رجب کے درمیان میں معاویہ کے مرنے سے جب اس کا بیٹا یزید خلیفہ بنا تو اس نے فوراً مختلف علاقہ جات کے حکام کو خط لکھا کہ لوگوں سے اس کے لئے دوبارہ بیعت لی جائے (کیونکہ پہلے معاویہ اس کے لئے لوگوں سے بیعت لے چکا تھا)۔ اس نے ولید ابن عتبہ کو بھی اسی عنوان سے خط لکھا جو معاویہ کی طرف سے مدینہ کا والی تھا۔ یزید نے اس خط کے ساتھ ایک چھوٹا سا خط بھی لکھ کر بھیجا جو اُن تین مشہور افراد سے بیعت لینے کے بارے میں تھا جنہوں نے معاویہ کے دور میں یزید سے بیعت نہیں کی تھی، خط لکھا: "خُذِ الحسین و عبداللہ بن عمر و عبداللہ بن زبیر اخذاً شدیداً لیست فیہ رخصۃً حتی یبایعوا والسلام"، "حسین اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر سے شدت کے ساتھ بیعت لو اور اس کام میں ان کے لئے کوئی رخصت اور فرصت نہیں یہاں تک کہ بیعت کریں والسلام"۔ ولید ابن عتبہ نے مروان ابن حکم کے ساتھ مشورہ کیا اور مروان کے دئیے ہوئے مشورہ کے مطابق فوراً آدمی بھیج کر ان تین افراد کو ایک اہم اور ضروری گفتگو کرنے کے عنوان سے بلوایا۔ ابن زبیر رات کی اس بے وقت دعوت کو سن کر خوفزدہ ہوگیا، لیکن حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے ولید سے ملاقات کرنے سے پہلے، ابن زبیر کے لئے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "اریٰ اَنَّ طاغیَتَہُم قد ہَلَک"، "میرا خیال ہے کہ بنی امیہ کا طاغوت (معاویہ) ہلاک ہوگیا ہے اور اس دعوت کا مقصد اس کے بیٹے کے لئے بیعت لینا ہے"۔ پھر امامؑ نے اپنے اصحاب اور خاندان کے قریبی افراد میں سے تین افراد کو حکم دیا کہ وہ مسلح ہوں اور آپؑ کے ساتھ چلیں اور محفل سے باہر تیار رہیں تاکہ اگر ضرورت پڑے تو وہ امامؑ کا دفاع کریں۔
...........
حوالہ:
[ماخوذ از: سخنان حسین بن علی (علیہماالسلام) از مدینہ تا کربلا، تصنیف: آیت اللہ محمد صادق نجمی]
Add new comment