چکیده:
نام نامی:حسین gبہشتی نام ہے پہلی بار نبی اعظمa کے اس عزیز نواسہ کے لیے استعمال ہواہے ا ور اولین و آخرین میں حسین gا یک ہی ہیں بلکہ چودہ معصومین bمیں بھی حسین gصرف ایک ہی ذات گرامی کا نام ہے .
سن مبارک7 : ۵ سال۷ ماہ اور ۷ روز
جائے ولادت:مدینہ منورہ ۳ شعبان المعظم ۳ ہجری بروز جمعرات
والد گرامی:شیر خدا علی مرتضی g
والدہ گرامی:سیدۃ النساء حضرت فاطمہ زہرا h
جد بزرگوار:صدر الخلائق حضرت محمد مصطفی a
برادر بزرگوار:أسوہ صبر و استقامت حسن مجتبی g
اصحاب کساء خمسہ طیبہ میں آخری شخصیت آپ ہی کی ذات گرامی ہے آپ کی شہادت سے جو دلی
صدمہ خود اہلبیت اطہار bان کے خاندان ، اصحاب اور عام مسلمانوں کو پہنچا ہے وہ بالکل ناقابل
جبران اور ناقابل توصیف ہے اس لئے کہ جب تک آپ زندہ تھے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ گویا حضرت
رسول aگرامی اسلام حضرت علی مرتضی g حضرت حسن مجتبی g حضرت فاطمہ زہرا h
ہمارے درمیان موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ ام المصائب حضرت زینب بنت امیرالمومنین cنے آپ
کی شہادت پر یہ جملے کہے :
اليوم مات جدی رسول اللهa اليوم مات ابی علی المرتضی g اليوم مات اخی حسن المجتبی g اليوم ماتت امی فاطمة الزهرا h
۵۷ سال میں سے ۷سال جد بزرگوار کے ساتھ۷ ۳ سال پدر بزرگوار کے ساتھ۴۷سال برادر بزرگوار کے ساتھ زندگی گزاری اور۰ ۱ سال بھائی کی شہادت کے بعد زندہ رہے زندگی کے آخری ایام میں آپ کو ان تمام مصائب کا سامنا کرنا پڑا.
ٰانتہائی وجیہ اور کشادہ چہرہ کے مالک تھےچہرہ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا آپ ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے تھے حتی کہ روز عاشور۰ ۳ ہزار دشمنوں کے نرغہ میں لمحہ بھر کے لیے چہر ا اترا دکھائی نہ دیا.
جذاب آنکھوں والے تھے آپ کی نگا ہیں ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں اورلوگ بس آپ ہی کودیکھتے رہتے تھے .
فاخرہ لباس پہن کر معطر حالت میں باہر تشریف لاتے تھے جب گھر سے باہر نکلتے تھے تو جوانان بنی ہاشم اپنی سواریوں پر سوار ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے ہوئے آپ کے ارد گرد پروانہ وار آپ کا طواف کرتے رہتے تھے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے تھے اور آپکو تنہا نہیں چھوڑتے تھے اور کمال یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے با وجود آپ تواضع اور انکساری کے ساتھ چلتے تھے کبھی بھی اکڑ کر نہیں چلتے تھے.
سخاوت میں شہرہ آفاق تھےحضرت کی سخاوت و بزرگواری زبان زد خاص و عام تھی بلکہ دوست و دشمن آپ کی بخشش کے قصے بیان کرتے تھے کسی سائل کو رد نہیں کرتے تھےمحتاج اور درماندہ افراد کو ان کے کسب و کار کیلئے سرمایہ عطا کرتے تھے بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کیلئے اپنے کاند ھوں پر غذا کے تھیلے اٹھا کر ان کے گھروں تک پہنچا تے تھے .
چنانچہ واقعہ کربلا کے بعد آپ کے کاندھے پر ایک گہرا زخم دیکھا گیاجو بظاہر تیر و تلوار کا زخم نہیں تھا.
امام زین العابدین g سے اس سے متعلق پوچھا گیاتو آپ نے ارشاد فرمایا :میرے پدر بزرگوار بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کیلئے اپنے کاندھے پر ان کے پاس غذائیں پہنچا تے رہتے تھے یہ زخم ان بے لوث خدمات کی نشانی ہے .
صلہ رحمی میں ید طولی رکھتے تھے اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ برابر رابطے میں رہتے تھے ان کے دیدارکیلئے ان کے گھر جایا کرتے تھے نزدیک سے ان کے حالات کا جائزہ لیتے تھے ان کی خوراک وپوشاک کا ا ہتمام فرماتےتھے .
مریضوں کی عیادت کیا کرتے تھےاور ان کی موت پر ان کی تشیع جنازہ میں حا ضر ہوتے تھے .
برابر اپنے بڑوں سے مشورہ کرتے تھے اپنے جد بزرگوار پدر بزرگوار مادر گرامی برادر بزرگوار سے مشورہ کرتے تھے اور اس میں ان کے ساتھ ادب کا خاص خیال رکھتے تھے .
شجاعت میں یکہ و تنہا تھے ان تمام تر اسباب کے باوجود جو حالات بڑے بڑے بہادروں کودشمن کے مقابلے کمزور و نا توان بنا دیتے ہیں جیسے عزیزوں کی موت کو برداشت کرنا شدید گرمی شدید بھوک اور شدید پیاس کافی مقدار میں بدن سے خون کا نکل جانا یہ سارے اسباب حضرت سیدالشہداء g کیلئے کربلا میں روز عاشور بدرجہ اتم موجود تھے .
اس کے باوجود آپ نے ایسا جہاد کیا اور غضبناک شیر کی طرح حملے کئے کہ فوج اشقیاء کے چھکے چھوٹ گئے حضرت کو دیکھ کر وہ ظالم ایسے بھاگتے تھے جیسے کمزور جانور شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہیں آپ نے روز عاشورہ شجاعت کے وہ منظر دکھائے جو کسی نبی یا وصی نبی سے دیکھنے میں نہیں آئے .
صبر میں اپنی مثال آپ تھے صبح عاشور سے عصر عاشور تک ایک ایک جوان کی لاش اٹھاتے رہے طرح طرح کے مصائب برداشت کرتے رہے اور ان پر ایسا صبر کرتے رہے کہ آسمان کے ملائکہ انگشت بدندان تھے .
امام زمانہ gاس سلسلہ میں فرماتے ہیں.
ولقد عجبت من صبرک ملائکة السموت
حوالہ جات
اعلام الوري طبرسي ، ص .213
اعيان الشيعه ، جزء ,11 ص .167
امالي شيخ طوسي ، ج 1، ص .377
معاني الاخبار، ص .57
Add new comment