عاشورا
پنجتن پاک کی اخری کڑی ، خاندان عصمت و طھارت کے دلبند حضرت امام حسین علیہ السلام لوگوں میں شعور و بیداری پیدا کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے تاکہ یزید اور بنی امیہ کی جانب سے دین اسلام میں پیدا کی جانے والی تحریفات کا سد باب ہوسکے ۔ امام حسین علیہ السلام نے سرزمین کربلا پر جام شہادت نوش کرکے دین اسلام
امام صادق علیہ السلام:
«من زارالحسین علیهالسلام یوم عاشورا وجبت له الجنة»
(اقبال الاعمال، ص 568)
جو شخص امام حسین علیہ السلام کی عاشورا کے دن زیارت کرے اس پر جنت واجب ہوجائے گی۔
یا لیتنا کنا معکم کہنا تو آسان ہے لیکن اے کاش ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے صحیح معنوں میں رنگ عاشورائی سے اپنے نفوس رنگ پاتے مندرجہ ذیل تحریر میں اسی بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بغیر کسی حاشیہ کے احادیث کی روشنی میں عاشورائی طرز حیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کربلا کی جنگ جسموں اورظاہری انسانوں کے درميان نہيں تھی بلکہ يہ جنگ اہداف و نظريات کی جنگ تھی۔ يہی وجہ ہے کہ يزيد مَات کھاگيا اورحسينؑ کامياب وکامران ہوگئے حسينؑ شہيدہوگئے اورظاہری طورپراس دنياسے چلے گئے ليکن سيدالشہداء اورآپ کے انصار و اعوان کی مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامی معاشرے ميں بيداری کی لہر پيداکردی۔
عاشوراکے واقعہ نے انقلاب برپاکرديا، غفلت کی نيندميں پڑے ہوئے لاپرواہ لوگوں کوبيدارکرديا، مردہ ضميرانسانوں کوزندہ کرديا،مظلوميت اورانسانيت کی فرياد بلندکردی اور پوری دنيائے انسانيت کومتاثرکرديا۔
خلاصہ: ولید نے رات کے وقت حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو بلوا کر بیعت طلب کی، لیکن حضرت نے خفیہ طریقہ کو قبول نہ کیا اور کھلم کھلا اور لوگوں کے سامنے بیعت کا طریقہ بتایا، مروان نے ولید کو اشارہ سے زبردستی بیعت لینے کو کہا تو حضرت نے اسے سخت ردعمل دکھایا۔
خلاصہ: یزید نے ولید بن عتبہ کو خط لکھ کر تین افراد سے بیعت لینے کا حکم دیا، ان تین افراد میں سے ایک حضرت امام حسین (علیہ السلام) تھے۔ ولید نے رات کے وقت گفتگو کے بہانے سے بلوایا۔