خلاصہ: جب اہل حرم کا قافلہ یزید کے دربار میں داخل ہوا اس وقت یزید نے امام سجاد(علیہ السلام) سے گفتگو کی، اس گفتگو کے دوران امام(علیہ السلام) نے یزید کو اس کے ایک استدلال کا جواب دیا اور قیامت کے دن اسکے رسوا ہونے کی پیشن گوئی فرمائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرحوم سید ابن طاؤس لکھتے ہیں: امام حسین(علیہ السلام) کے اہل بیت(علیہم السلام) کو رسی سے باندھ کر دربار یزید میں لایا گیا، اور مقرّم نقل کرتے ہیں کہ امام زین العابدین(علیہ السلام) اور حضرت زینب(سلام اللہ علیھا) اور تمام بیبیوں کے گلے کو رسی سے باندھ کر دربار یزید میں لایا گیا اور جب بھی وہ لوگ رک جاتے تو ان کو مارا جاتا۔
امام سجاد(علیہ السلام) فرماتے ہیں: جب زنجیر میں باندھ کر ہم کو دربار یزید میں یزید کے سامنے لایا گیا، میں نے یزید سے مخاطب ہوکر کہا: «یا یَزیدُ ما ظَنُّکَ بِرَسُولِ اللهِ لَوْ رَآنا عَلى هذِهِ الْحالَهِ؛ اے یزید اگر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمیں اس حال میں دیکھینگے تو اس وقت تیرے بارے میں کیا گمان کرینگے».
اسی وقت فاطمہ بنت حسین(علیہ السلام) نے بھی کہا: «بنات رسول اللہ سبایا۔۔۔۔۔۔۔، رسول کی بیٹیاں اسیر ہیں، بی بی کا یہ کہنا تھا کہ تمام لوگ رونے لگے، اور یزید کے اہل خانہ بھی رونے لگے یہاں تک کہ رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں»
امام سجاد(علیہ السلام) نےایک بار پھر فرمایا: «یا یَزیدُ ما ظَنُّکَ بِرَسُولِ اللهِ لَوْ لَوْ رَآنِي فِي الْغُل; اے یزید اگر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اگر مجھے زنجیر میں دیکھینگے، تو اس وقت تیرے بارے میں کیا گمان کرینگے»۔
جب یزید نے یہ دیکھا تو امام(علیہ السلام) کی زنجیر کو کھول نے کا حکم دیا[۱]۔
یزید نے امام حسین(علیہ السلام) اور شہداء کے سروں کو لانے کا حکم دیا اور جب ان کے سروں کو لاکر اس کے سامنے رکھا گیا تو یزید نے امام حسین(علیہ السلام) کے سر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ مردکہتا تھا کہ اس کا باپ میرے باپ سے اور اسکی ماں میرے ماں سےا ور اس کا جد میرے جد سے بہتر ہے اور وہ خود مجھ سے بہتر ہے، اور اس کے اسی قول نے اس کی جان لے لی [۲]۔
امام سجاد(علیہ السلام) نے گفتگو کے درمیان اس کو اس طرح جواب دیا: « اے معاویہ اور ہند کے بیٹے، تیرے پیدا ہونے سے پہلے ہمیشہ میرے والد اور اجداد نے نبوت اور حکمرانی کی ہے، اور میرے جد حضرت علی(علیہ السلام) جنگ بدر اور احد اور احزاب میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پرجم کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے، اور تیرا باپ(معاویہ) اور جد(ابو سفیان) کفار کے پرچم کو اپنے ہاتھوں میں رکھتے تھے»۔
اس کے بعد امام سجاد(علیہ السلام) نے ان اشعار کو پڑھا:
ماذا تَقُولُونَ اِذْ قالَ النَّبِىُّ لَکُمْ **** ماذا فَعَلْتُمْ وَ اَنْتُمْ آخِرُ الاُْمَمِ
بِعِتْرَتی وَ بِاَهْلی عِنْدَ مُفْتَقَدی **** مِنْهُمْ اُسارى وَ مِنْهُمْ ضُرِّجُوا بِدَمِ
اس وقت کیا جواب دیگا جب نبی(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) تجھ سے کہینگے، تم لوگ آخری امت تھے پھر بھی میری امت اور عترت اور میرے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟ ان میں کچھ کو اسیر کیا اور کچھ کو خاک اور خون میں غلطاں۔
اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے فرمایا: اے یزید تیرے اوپر وای ہو، اگر تو یہ جانتا کہ تو نے میرے والد اور بھائی اور چچا اور خاندان کے ساتھ کتنے بڑے ظلم و ستم کا مرتکب ہوا ہے، تو یقینا تو اس کی وحشت سے پہاڑوں کی جانب فرار کرتا اور خاک پر بیٹھ کر آہ و بکاء کرتا، اس بات پر افسوس کرتے ہوئے کہ کیوں میں نے حسین ابن علی کے ساتھ اتنے بڑتے ظلم کو روا رکھا۔
اے یزید میں تجھے قیامت کے دن ذلیل اور رسوا ہونے کی پیشن گوئی کرتا ہوں ہوں[۳]۔
...........................
حوالے:
[۱]. محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، ج۴۵، ص۱۳۲، ۱۴۰۲ق.
[۲]۔ گذشتہ حوالہ، ص۱۳۱۔
[۳]. گذشتہ حوالہ، ص۱۳۶۔
Add new comment