خلاصہ: ولید نے رات کے وقت حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو بلوا کر بیعت طلب کی، لیکن حضرت نے خفیہ طریقہ کو قبول نہ کیا اور کھلم کھلا اور لوگوں کے سامنے بیعت کا طریقہ بتایا، مروان نے ولید کو اشارہ سے زبردستی بیعت لینے کو کہا تو حضرت نے اسے سخت ردعمل دکھایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جیسا کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے پشینگوئی کی تھی ولید ابن عتبہ نے معاویہ کی موت کی خبر دینے کے ساتھ یزید سے بیعت کرنے کی بات بھی آپؑ سے کی۔ آپؑ نے فرمایا : مجھ جیسی شخصیت کو خفیہ طور پر بیعت نہیں کرنا چاہیے اور تمہیں بھی ایسی بیعت پر راضی نہیں ہونا چاہیے اور جب تم مدینہ کے سب لوگوں کو دوبارہ بیعت کے لئے دعوت دوگے تو ہمارا اگر ارادہ بنا تو ہم بھی اس محفل میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور مل کر بیعت کریں گے۔ یعنی یہ بیعت، اللہ کی رضامندی کے لئے نہیں ہے، بلکہ لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہے، جو اگر وقوع پذیر ہو تو کھلم کھلا ہونی چاہیے نہ کہ خفیہ طور پر۔
ولید نے امامؑ کی بات کو قبول کرلیا اور رات کے اُس وقت میں بیعت لینے پر زور نہ دیا۔ جب امامؑ محفل سے باہر جانے لگے تو مروان ابن حکم بھی جو اس محفل میں موجود تھا، اس نے ایماء و اشارہ سے ولید کو یہ بات سمجھائی کہ اگر تم رات کے اِس وقت اور خلوت میں حسین ابن علی سے بیعت نہ لے سکوگے تو پھر انہیں بیعت پر مجبور نہیں کرپاؤگے مگر یہ کہ بہت سارا خون بہایا جائے، تو بہتر ہے کہ انہیں اِس محفل میں روکو تاکہ وہ بیعت کریں یا یزید کے حکم کے مطابق ان کی گردن اڑا دو۔
امامؑ نے مروان کی بات کے بعد اسے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: "یَا ابْنَ الزَّرْقاء! اَنْتَ تَقْتُلُنی اَمْ ھُوَ؟ کَذِبْتَ وَ اَثِمْتَ"، "اے زرقاء کے بیٹے! تو مجھے قتل کرے گا یا وہ (ولید)؟ تو نے جھوٹ بولا اور گناہ کیا"۔ (واضح رہے کہ زرقاء، مروان کی دادی تھی جو اپنے زمانہ کی بدنام عورتوں میں سے تھی)۔
پھر حضرتؑ نے ولید سے مخاطب ہو کراہل بیت (علیہم السلام) کے کچھ فضائل بیان فرمائے اور یزید کی کئی بری صفات بتائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: سخنان حسین بن علی (علیہماالسلام) از مدینہ تا کربلا، تصنیف: آیت اللہ محمد صادق نجمی)
Add new comment