خلاصہ: حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے ایک طویل حدیث میں امام اور امامت کے مقام کا تعارف کروایا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقام امامت ایسا بلند اور عظیم مقام ہے جس کی حقیقت تک کسی کے طائر فکر کی رسائی نہیں ہے۔ لہذا جیسے امام اور امامت کا تقرر صرف اللہ کا کام ہے، اسی طرح اللہ ہی امام اور امامت کا بہترین تعارف کرواسکتا ہے اور انسانوں میں سے معصومین (علیہم السلام) ہیں جو امام اور امامت کا بہترین طریقہ سے تعارف کرواسکتے ہیں، ان حضرات میں سے ایک، حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) آٹھویں تاجدار امامت و ولایت ہیں۔
آپؑ نے ایک طویل حدیث میں امام اور امامت کی معرفت اور پہچان کروائی ہے۔ عبدالعزیز ابن مسلم کا کہنا ہے کہ "كُنَّا فِي أَيَّامِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا ع بِمَرْوَ فَاجْتَمَعْنَا فِي مَسْجِدِ جَامِعِهَا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي بَدْءِ مَقْدَمِنَا فَإِذَا رَأَى النَّاسُ أَمْرَ الْإِمَامَةِ وَ ذَكَرُوا كَثْرَةَ اخْتِلَافِ النَّاسِ فِيهَا فَدَخَلْتُ عَلَى سَيِّدِي وَ مَوْلَائِيَ الرِّضَا ع فَأَعْلَمْتُهُ مَا خَاضَ النَّاسُ فِيهِ" (عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج1، باب 20، ص 216 )، "ہم علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کے زمانہ میں مرو میں تھے تو ہم وہاں پر داخل ہونے کی ابتدا میں مرو کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن اکٹھا ہوئے۔ لوگ امامت کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اور لوگوں کا امامت کے بارے میں شدید اختلاف بتارہے تھے، میں اپنے سید اور مولا رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو میں نے آپؑ کو لوگوں کی گفتگو کی اطلاع دی"۔ یہاں سے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ یہ واقعہ، لوگوں کی گفتگو اور حدیث مرو یعنی ایران میں وقوع پذیر ہوا ہے۔
۲۔ امامت کا موضوع اتنا اہم ہے کہ لوگ اس بارے میں آپس میں شدید بحث میں مصروف تھے اور وہ بھی جمعہ کے دن مسجد جامع میں، اور وہ لوگ دوسرے لوگوں کے اختلاف کو بھی بیان کررہے تھے۔
۳۔ راوی حضرتؑ کے اصحاب اور موالیوں میں سے ہے، تبھی آپؑ کو اپنا سید اور مولا کہہ رہا ہے۔
۴۔ جب لوگ مختلف آراء و نظریات کی کشمش میں ہوں تو انسان کو امام اور حجت خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عيون أخبار الرضا عليه السلام،شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، 1378۔
Add new comment