پیغمبر اسلام کی معراج کے بہت سے اہداف تھے جن میں خدا اور تخلیق خدا کا عرفان اور موجودات خداوندی کا مشاہدہ تھا.
معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا ہے، تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی ہے۔ چودہ سو سال بعد ذہنِِ انسانی کے ارتقاءنے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے سہارے معراج اور اس سے متعلقہ واقعات کو ایسی حقیقت میں تبدیل کردیا ہے جو ناقابلِ تردید ہے۔ عہدحاضر کا انسان اس کے ماننے میں جھجک اور پس و پیش کا شکار نہیں۔ یہی باتیں جب مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور بعید از ممکنات تھیں۔ آج ہم گھر بیٹھے ٹیلی فون کے ذریعے یورپ و امریکہ میں مقیم اُن عزیز واقارب سے باتیں کرتے ہیں جو ہزاروں میل دور بستے ہیں۔ مواصلاتی سیاروں کے ذریعے دوسرے براعظم میں ہونے والے کرکٹ اور ہاکی کے میچ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ نیویارک میں ایک سو دو منزلہ امپائر اسٹیٹ کی فلک بوس عمارت میں لفٹ کے ذریعے منٹوں میں اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔نیل آرمسٹرانگ کے چاند کی سطح پر پہنچ کر بلندیوں سے کرہ ارض کی خوبصورتیوں کے بیان پر کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارا یقین متزلزل ہوتا ہے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی قیامت خیز ہولناک تباہیوں کو ثابت کرنے کے لیے کسی عینی شاہد کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ آج کا انسانی ذہن ان تمام باتوں سے مانوس ہے۔ باندازِ دیگر یہی باتیں چودہ سو سال پہلے اُمّی لقب، معلم کتاب و حکمت اور مخبرصادق نے سنائیں تو دنیا ماننے کو تیار نہ تھی۔ وحی، براق، اسراء، معراج، قیامت، حساب و کتاب، جزا و سزا، جنت دوزخ وغیرہ وغیرہ تو یہ سب باتیں ناقابلِِ فہم اور ناقابلِِ یقین تھیں۔
مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معراج کا مقصد کیا تھا؟[1] اس سوال پر بحث کرنے سے پہلے ہم یاد دہانی کرتے ہیں کہ معراج کا مقصد، حکمت، صرف قرب الہی نہیں ہے بلکہ اس کے دوسرے مقاصد بھی مد نظر تھے۔ ہم ان مقاصد کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ اگر چہ خداوند متعال ہر جگہ پر حاضر ہے، لیکن بعض مواقع پر اس کے ساتھ قوی تر رابطہ بر قرار کیا جاسکتا ہے،اس قسم کی حالت کو حج میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔
لیکن معراج کا مقصد، جیسا کہ بعض تفاسیر میں آیا ہے، یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) عالم ہستی، خاص کر عالم بالا میں خداوند متعال کی عظمت کے اسرار کا مشاہدہ کرکے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک تازہ ادراک و نظریہ حاصل کرسکیں۔ بہ مقصد سورہ اسراء کی ابتداء اور سورہ نجم کی آیت نمبر 18 میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔[2]
احادیث کی کتابوں میں بھی پیغمبر اسلام (ص) کے معراج کے بعض مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، من جملہ:
1۔ یونس بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے امام کاظم (ع) سے پوچھا: خداوند متعال کس وجہ سے اپنے پیغمبر (ص) کو آسمان کی طرف اوپر لے گیا اور وہاں سے سدرة المنتہی کی طرف اور وہاں سے نور کے حجابوں کی طرف لے گیا اور وہاں پر ان کے ساتھ گفتگو اور سرگوشیاں کیں، حتی کہ خداوند متعال کی، مکان سے توصیف نہیں کی جاسکتی ہے اور اس کے لئے زمانہ معنی نہیں رکھتا ہے لیکن خداوند متعال نے چاہا کہ اپنے فرشتوں اور آسمانوں کے ساکنوں کی، پیغمبر (ص) کو دکھا کر نوازش کرے اور اپنی تخلیق کے عجائب اپنے پیغمبر(ص) کو دکھائے تاکہ وہاں سے لوٹنے کے بعد لوگوں کو خبر دیدیں اور یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ فرقۂ مشبّہہ کہتے ہیں ۔خداوند متعال ان چیزوں سے پاک و منزہ ہے، جو اس کی توصیف میں کہا جاتا ہے"۔[3]
2۔ ثابت دینار کہتے ہیں: میں نے امام زین العابدین(ع) سے پوچھا:" کیا خداوند متعال کا ( معین و مخصوص) کوئی مکان ہے جہاں پر وہ رہتا ہے؟ امام نے جواب میں فرمایا: خداوند متعال اس سے پاک و منزہ ہے(کہ اس کے بارے میں کسی خاص مکان کا تصور کیا جائے"۔) میں نے پوچھا: پس خداوند متعال کیوں حضرت محمد (ص) کو آسمان پر لے گیا؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ( آنحضرت (ص) کو آسمان کی طرف لے جانے کی یہ دلیل نہیں ہے کہ خداوند متعال کا کوئی خاص مکان ہے بلکہ آنحضرت (ص) کو آسمان پر لےگیا تاکہ عالم ملکوت کا انھیں مشاہدہ کرائے۔ اور اپنی تخلیق کے عجائب کو انھیں دکھائے"[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1]با شکریہ www.islamquest.net/fa
[2] تفسیر نمونہ، ج 12، ص 17۔
[3] علل الشرائع، ج 1،ص 132،
[4] علل الشرائع، ج 1،ص131۔132۔
Add new comment