انسان
حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اِعْجَبُوْا لِهٰذَا الْاِنْسَانِ یَنْظُرُ بِشَحْمٍ، وَ یَتَکَلَّمُ بِلَحْمٍ، وَ یَسْمَعُ بِعَظْمٍ، وَ یَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ!.[1] یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی (آنکھ) سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے (زبان) سے بولتا ہے اور ہڈی (کان) سے سنتا ہے
امام امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں : صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوْقُ سِرِّهٖ، وَ الْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ، وَ الِاحْتِمَالُ قَبْرُ العُیُوْبِ.[1] عقلمند کا سینہ اس کے رازوں کا مخزن ، کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا اور تحمل و بردباری عیبوں کا مدفن ہے۔
پیش نظر مختصر نوشتے میں ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے:انسان کی سرگرمیوں کا سرچشمہ کیا ہے؟شک و شبہ میں باقی رہنے سے انسانی روح کن بیماریوں کا شکار بن سکتی ہے؟انفرادی اور معاشرتی برایئوں کی جڑیں کون سی چیزیں ہیں؟مغرب کی اندھی تقلید،اسلامی احکامات کی مخالفت ہے؟
ساتھ ہی ان موضوعات پر دعوت فکر و نظر دی گئی ہے: وجودی مسائل کا حل کس راستے سے ہوکر گذرتا ہے؟مغربی معاشرے کی ثقافتی بنیادوں کوکن لوگوں نے الٹ کر رکھ دیا؟الہٰی فلسفہ کن چیزوں سے پناہ دیتا ہے؟فلسفی تفکرات کوسب سے پہلے کہاں استحکام بخشنےکی ضرورت ہے ؟
خلاصہ:یقین یہ ہے کہ اگر کوںٔی راستہ سُجھائی نہ دے اور تم کہو کہ راستہ بنانے والی اللّٰہ کی ہے۔
خلاصہ: خداوند متعال نے انسان کی تمام مخلوقات پر شرافت اور کرامت بخشی ہے۔
خلاصہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے نظم و تدبیر میں تبدیلیوں اورموجودہ ترقی سے جس طرح استفادہ کرتا ہے وہ کسی بھی دوسری مخلوق میں نظر نہیں آتا۔
خلاصہ: زمینوں اور عالم طبیعت کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ انسان کی خلقت کے اسباب فراہم ہو جائیں اور پھر انسان کو خلق کیا تا کہ اس کی آزمائش کرے۔
خلاصہ: بلاء کے نازل ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ انسنان بلاء کے ذریعہ بیدارہوتا ہے۔