انسان کی سرگرمیوں کا سرچشمہ

Sun, 03/27/2022 - 18:51

پیش نظر مختصر نوشتے میں ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے:انسان کی سرگرمیوں کا سرچشمہ کیا ہے؟شک و شبہ میں باقی رہنے سے انسانی روح کن بیماریوں کا شکار بن سکتی ہے؟انفرادی اور معاشرتی برایئوں کی جڑیں کون سی چیزیں ہیں؟مغرب کی اندھی  تقلید،اسلامی احکامات  کی مخالفت ہے؟

ساتھ ہی ان موضوعات پر دعوت فکر و نظر دی گئی ہے: وجودی مسائل کا حل کس  راستے سے ہوکر گذرتا ہے؟مغربی معاشرے کی ثقافتی بنیادوں کوکن لوگوں نے الٹ کر رکھ دیا؟الہٰی فلسفہ کن چیزوں سے پناہ دیتا ہے؟فلسفی تفکرات کوسب سے پہلے کہاں استحکام بخشنےکی ضرورت ہے ؟

انسان کی سرگرمیوں کا سرچشمہ کیا ہے؟

انسان ایک ایسی باشعور مخلوق ہے جس کی سرگرمیاں علم وآگھی کی بنیادپروجود میں آتی ہیں اور شک و شبہہ کی حالت میں باقی رہنانہ ہی انسان کی متجسّس روح کوآسودہ رہنے دیتا ہےاور نہ ہی ممکنہ ذمّہ داریوں کے خوف سےنجات ملتی ہے بلکہ ایسی حالت میں باقی رہنے سے انسان قنوطیت اور جمود کاشکار بن جاتا ہے اوربسا اوقات انسان ایک خطرناک صورت اختیار کرلیتاہے لہٰذا ہمیں انفرادی اور معاشرتی برائیوں کی جڑوں کو غلط فیصلوں اور غلط نظریوں میں هی تلاش کرناچاہئے۔

اس لئےکہ ہمارے پاس اس کےعلاوہ کوئی راستہ نہیں ہےکہ هم اپنے محکم ارادوں کے ساتھ ان مسائل کی تحقیق کریں اور انسانی زندگی کی  بنیادوں کو مستحکم کرنے میں ہر ممکنہ کوشش کریں لہٰذااس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے اس سوال کے روبرو ہوتے ہیں کہ کیا انسانی عقل ان مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے؟ نظریۂ علم کی بنیاد اسی سوال پر ٹکی ہوئی ہے اس لئے کہ عقلی معرفت کا اقداری ہونا جب تک ثابت نہیں ہوگا وجودی مسائل کے حقیقی حل کو پیش کرنے کا دعویٰ کرنا  بے فائدہ اور لغو ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر فلسفۂ غرب کی مشہور و معروف شخصیتوں نے ٹھوکر کھائی ہے جیسے کہ ہیوم، کینٹ اور اگوست کینٹ وغیرہ اور بدقسمتی سے یہ تباہ کن مکاتب دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پھیل چکے ہیں اور دوسروں کو متأثر کررہے ہیں سوائے ان بلند چوٹیوں اور سخت چٹانوں کے جو مستحکم اور مستدل الٰہی فلسفہ کی پناہ میں ہیں۔

 اس بنیاد پر ہمیں اپنے پہلے ہی قدم کو مستحکم اور مضبوطی سے اٹھانے اور اپنے فلسفی تفکرات کوبنیادی مرحلہ میں ہی استحکام بخشنےکی ضرورت ہے ۔انسان ایک ایسی باشعور مخلوق ہے جس کی سرگرمیاں علم وآگھی کی بنیادپروجود میں آتی ہیں اور شک و شبہہ کی حالت میں باقی رہنانہ ہی انسان کی متجسّس روح کوآسودہ رہنے دیتا ہےاور نہ ہی ممکنہ ذمّہ داریوں کے خوف سےنجات ملتی ہے بلکہ ایسی حالت میں باقی رہنے سے انسان قنوطیت اور جمود کاشکار بن جاتا ہے اوربسا اوقات انسان ایک خطرناک صورت اختیار کرلیتاہے لہٰذا ہمیں انفرادی اور معاشرتی برائیوں کی جڑوں کو غلط فیصلوں اور غلط نظریوں میں هی تلاش کرناچاہئے۔

اس لئےکہ ہمارے پاس اس کےعلاوہ کوئی راستہ نہیں ہےکہ ہم اپنے محکم ارادوں کے ساتھ ان مسائل کی تحقیق کریں اور انسانی زندگی کی  بنیادوں کو مستحکم کرنے میں ہر ممکنہ کوشش کریں لہٰذا اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے اس سوال کے روبرو ہوتے ہیں کہ کیا انسانی عقل ان مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے؟

نظریۂ علم کی بنیاد اسی سوال پر ٹکی ہوئی ہے اس لئے کہ عقلی معرفت کا اقداری ہونا جب تک ثابت نہیں ہوگا وجودی مسائل کے حقیقی حل کو پیش کرنے کا دعویٰ کرنا  بے فائدہ اور لغو ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر فلسفۂ غرب کی مشہور و معروف شخصیتوں نے ٹھوکر کھائی ہے جیسے کہ ہیوم، کینٹ اور اگوست کینٹ وغیرہ اور بدقسمتی سے یہ تباہ کن مکاتب دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پھیل چکے ہیں اور دوسروں کو متأثر کررہے ہیں سوائے ان بلند چوٹیوں اور سخت چٹانوں کے جو مستحکم اور مستدل الٰہی فلسفہ کی پناہ میں ہیں اس بنیاد پر ہمیں اپنے پہلے ہی قدم کو مستحکم اور مضبوطی سے اٹھانے اور اپنے فلسفی تفکرات کوبنیادی مرحلہ میں ہی استحکام بخشنےکی ضرورت ہے ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 104