استغفار
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اَلتَّوْبَةُ عَلى اَرْبَعَةِ دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَ اسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ وَ عَزْمٌ اَنْ لایَعُودَ ۔
توبہ کے چار ستون ہیں :
۱: دل سے پشیمانی
۲: زبان سے استغفار
۳: اعضاء بدن سے عمل
اللهم استغفرک لکل ذنب نسیته؛اے میرے معبود! مجھے ان سارے گناہوں
کی خاطر معاف کردے جو میں بھول چکا ہوں۔
خلاصہ: اس مضمون میں حضرت آدم اور حضرت حوّا (علیہما السلام) کی دعا بیان کرتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے درس آموز نکات کی وضاحت کی جارہی ہے۔
خلاصہ: خطبہ شعبانیہ کی تشریح کرتے ہوئے چودہواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان کے سلسلے میں ہے، اس خطبہ کے اس فقرے کی تشریح کی جارہی ہے جس میں استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔
خلاصہ: بعض واجبات کو فوراً بجالانا ہوتا ہے، ان میں سے ایک، توبہ ہے۔
خلاصہ: استغفار سے اللہ کی رحمت انسان کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی ناراضی سے بچ جاتا ہےاور استغفار کا سب سے بہترین وقت رات کا وقت ہے۔۔
إِذٰا اسْتَغْفَرْتَ اللهَ، فَاللهُ یَغْفِرُ لَكَ؛”اگر تم خدا سے استغفار کروگے تو خداوندعالم بھی تم کو معاف کردےگا“۔[مدینة المعاجز، ج 8، ص 85۔]شیخ کلینی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف کو امام زمانہ علیہ السلام کی احادیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔
خلاصہ: استغفار کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اگر گنہگار، استغفار نہ کرے تو اگلے گناہ کے گڑھے میں گرجائے گا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہے، اگر استغفار کرے تو وہ غفلت کی نیند سے جاگ گیا ہے اور گناہ سے پرہیز کرنے کی کوشش کررہا ہے، لیکن اگر استغفار نہ کیا تو وہ گناہ سے بچنے میں غفلت کررہا ہے۔
خلاصہ: ذکر صرف یہ نہیں کہ آدمی زبان سے کہے، بلکہ اس کا معتقد بھی ہونا چاہیے، انسان جس قدر اسلامی تعلیمات کو گہری نظر سے حاصل کرتا چلا جائے گا، دین کے بارے میں اس کی بصیرت بڑھتی چلی جائے گی، جب مشکلات سے سامنا کرے گا، تو ان تعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہوگا، نہ کہ اس ذہنیت کے ساتھ جو عام طور پر لوگوں میں رائج ہے۔