گناہ
تقویٰ کا مصدر وقایہٰ ہے، جس کے معنی ہیں حفاظت اور پرہیزگاری۔ شرعی اصطلاح میں خود کو ہر اس چیز سے روکنا جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہو، باالفاظِ دیگر اوامر و نواہی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا تقویٰ ہے چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب تقویٰ کے معنی دریافت کیے گئے تو آپ نے فرمایا :اَنْ َ لایَفْقُدُکَ حَیْثُ اَمَرَکَ وَ َ لا یَدَاکَ حَیْثُ نَهَاکَ؛"جہاں حکمِ خدا ہے وہاں سرِ تسلیم خم کر دو اور جہاں نہی خداوندی ہے وہاں سے دُور رہو"۔[سفینة البحار جلد ۳ ص ۶۷۸]
خلاصہ: شادی شدہ انسان کئی طریقے کے گناہوں سے آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: رجب بہت ہی بڑا مہینہ ہے کہ جسمیں خدا نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھادیتا ہےاور گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔[ثواب الاعمال،ص۵۳]
امام علي عليہ السلام:أبْصَرُ النَّاسِ مَنْ أَبْصَرَ عُيُوبَهُ وَ أَقْلَعَ عَنْ ذُنُوبِهِ؛سب سے زیادہ عقلمند،وہ شخص ہے کہ جو اپنے عیوب پر نظر رکھےاور اپنے گناہوں سے دوری اختیار کرے۔[غررالحکم،حکمت۴۶۹۰]
خلاصہ: گناہ کو چھوٹا سمجھنا سب سے بہت بڑا گناہ ہے۔
شیطان کا وسوسہ:
تم نے بہت گناہ کیے ہیں، اب تمہاری توبہ قبول ہونے والی نہیں ہے؛ لہذا اپنے گناہوں کو انجام دیتے رہو۔
خلاصہ: بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ گناہ چھوٹا سا ہے، اتنا بڑا گناہ تو نہیں ہے، لہذا اس کا ارتکاب کرلیتا ہے، جبکہ یہ سوچ غلط ہے، ایسے موقع پر جو صحیح سوچ ہونی چاہیے، اس مضمون میں بیان کی جارہی ہے۔
خلاصہ: ہمارے گناہ قرآن کو سمجنے کے لئے سب سے بڑا حجاب ہے۔