مناسبتیں
۱۶ ستمبر ۱۹۸۲ کو صیھونی دہشت گردوں نے لبنان میں بیروت کے مضافات میں آوارہ فلسطینیوں کے پناہ گزین کیمپ صبرا اور شتیلا پر وحشیانہ حملہ کیا اور اس دہشت گردانہ کاروائی میں معصوم بچوں ، بے گناہ خواتین اور غیر مسلح عوام کا انتہائی بے دردی اور سنگدلی سے قتل عام کیا اور نسل کشی انجام دی اور اس وقت اس جن
مورخین نے امام مظلوم حسین ابن علی علیہما السلام کی چار بیٹیاں تحریر کی ہیں ؛ فاطمہ کبری، فاطمہ صغری، سکینہ اور رقیہ ۔ شیعہ منابع میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی چار سالہ بیٹی کا تذکرہ ہے ، قرن ششم هجری قمری کے مصنف علاء الدین طبری کی کتاب کامل بہائی میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے کہ شام کے قید خا
اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین ، معصوم بچوں اور غل و زنجیروں میں جکڑے ہوئے امام زین العابدین سید الساجدین حضرت علی بن الحسین علیہ السلام کو قیدیوں کی شکل میں جب یزید پلید کے محل میں داخل کیا گیا تو سات سو کرسی نشین سامنے تھے ، ان ہستیوں کو قیدی اور غلاموں کی شکل می
کربلا کا واقعہ ایک ایسا عظیم اور بےنظیرحادثہ ہے جسے چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود فراموش نہیں کیا جاسکتا اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کی اہمیت ، جاذبیت اور اثرگذاری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور بشریت پہلے سے زیادہ انسانی سعادت فلاح اور بہبود کیلے اس واقعہ کی محتاج ہے کیونکہ انسانی اور اس
لعن ، خدا کی رحمت سے دور کرنے اور محروم کرنے کے معنی میں ہیں یعنی لعنت کرنے والے کی خدا سے یہ درخواست ہوتی ہے کہ وہ ملعون کو اپنی رحمتوں سے محروم کردے ۔
تاریخ کربلا کا اہم ترین موضوع جس پر بہت سارے محققین اور دانشورں نے قلم چلائے ہیں وہ سفر کربلا میں اہل حرم کی امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام یزیدوں سے جنگ اور اپنی شھادت کا علم رکھنے کے باوجود اہل حرم کو اپنے ساتھ مدینہ سے کیوں لیکر نکلے ؟
کربلا کے تپتے صحراء میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا اپنے بہتر ساتھیوں کے ساتھ تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا جانا حتی کہ چھ مہینہ کے ننھے علی اصغر کو طلب آب پر تیر سہ شعبہ کا نشانہ بنانا ، خاندان رسالت کی مخدرات عصمت و طہارت کو رسن بستہ بے مقنع و چادر کوفہ اور شام کے بازاروں و در
کربلا کے واقعہ میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں اور آپ کے ہمراہ شہید ہونے والے عظیم الشان شہداء کی تعداد کے سلسلے سے مشہور و معروف قول یہ ہے کہ ان جاں نثاروں کی تعداد بہتر ہے جسے مختلف مصنفین و مؤلفین نے نقل کیا ہے جیسے ہمارے بزرگ عالم دین جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علی
امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ میں مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فراوان ، کثیر اور لاتعداد روایتیں اور حدیثیں منقول ہوئی ہیں لہذا ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام رسول خدا (ص) کی نگاہ سے بیان اور معرفی کئے جائیں ، ان احادیث میں سے ایک حدیث «اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ علیه
حضرت آیت اللّه جوادی آملی اس سوال کے جواب میں کہ «اگر امام حسین علیہ السلام اپنی شھادت سے اگاہ تھے تو کربلا کیوں گئے اور اگر انہیں علم نہیں تھا جو روایتیں ائمہ معصومین علیہم السلام کے علم غٖیب پر دلالت کرتی ہیں ان کی تفسیر کیا ہوگی» ، فرماتے ہیں: