حضرت ابوطالب کی مختصر تاریخ

Wed, 02/07/2024 - 09:47

اسلامی ڈائری میں ۲۶ رجب المرجب حضرت ابوطالب کی وفات کا دن ہے ، ہم سب سے پہلے اس

موقع پر تمام اہل ایمان خصوصا حجت دوران امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں اس کے بعد اپ کی شخصیت، کمالات ، فضائل و مناقب اور اپ کی عظمت کی جانب اشارہ کریں گے ۔

اپ کا اسم گرامی:

اپ کا نام «عبد مناف» اور اپ کی مشھور کنیت «ابوطالب» ہے بعض نے «عمران» کے نام سے بھی یاد کیا ہے کہ صاحب کتاب «عمدة الطالب فی انساب آل ابی ‌طالب» نے اسے ضعیف بتایا ہے ۔

عھد فترت کے اخری حجت

علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ تحریر کرتے ہیں: « حضرت ابوطالب سلام اللہ علیہ کے سلسلہ میں شیعوں کا اجماع ہے کہ اپ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعلان بعثت کے ابتدائی دنوں میں ہی اپ کی رسالت پر ایمان لے ائے تھے ، اپ نے بت پرستی کا عمل ہرگز انجام نہیں دیا بلکہ اپ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اوصیاء میں سے تھے ۔

شیخ صدوق علیہ الرحمۃ نے فرمایا: روایت میں نقل ہے کہ جناب عبد المطلب حجّت تھے اور جناب ابوطالب اپ کے وصیِّ تھے ۔

علامہ امینی تحریر کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب سے دریافت کیا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے پہلے اخری وصی کون تھا ؟ تو اپ نے فرمایا : میرے والد ۔ (۱)

اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں کہ میں نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے سنا کہ میرے باپ داد ، ابوطالب ، عبدالمطلب ، ہاشم و عبد مناف ہرگز بت پرست نہیں تھے ، اپ سے سوال کیا گیا تو وہ لوگ کس کی عبادت کیا کرتے تھے ؟ اپ علیہ السلام نے فرمایا: «کَانُوا یُصَلُّونَ اِلَی الْبَیْتِ، عَلَی دِینِ اِبْرَاهِیمَ علیه السلام ، مُتَمَسِّکِینَ بِهِ» کعبہ کی سمت نماز پڑھتے تھے ، دین حضرت ابراھیم خلیل اللہ پر تھے اور ان پر ایمان رکھتے تھے ۔ (۲)

امام موسی کاظم علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ایا حضرت ابو طالب رسول اکرم صلی الله علیه و آله پر بھی حجت تھے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: «لاَ، وَلَکِنَّهُ کَانَ مُسْتَوْدَعا لِلْوَصَایَا، فَدَفَعَهَا اِلَیْهِ» نہیں ، بلکہ وصایا کے امانتدار تھے اور اسے ان تک پہنچاتے تھے ۔ (۳)

علامہ مجلسی اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : اس حدیث میں «وصایا» سے مراد رسولوں کی کتابیں ، حضرت موسی کا عصا اور جناب سلیمان کی انگوٹھی اور اس کے مانند چیزیں تھیں ۔

حضرت ابوطالب سلام اللہ علیہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی مدحت میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اخر میں فرمایا: «وَلَقَدْ کَانَ اَبِی یَقْرَأُ الْکُتُبَ جَمِیعا، وَلَقَدْ قَالَ: اِنَّ مِنْ صُلْبِی لَنَبِیّا وَلَوَدَدْتُ اَنِّی اَدْرَکْتُ ذَلِکَ الزَّمَانَ فَآمَنْتُ بِهِ، فَمَنْ اَدْرَکَهُ مِنْ وُلْدِی فَلْیُؤْمِنْ بِهِ» ۔ (۴)

میں والد (عبدالمطلب) نے تمام [اسمانی] کتابیں پڑھیں اور فرمایا پیغمبر (ص) ہماری نسل سے ہوں گے ، میں اس سے ملاقات کا مشتاق ہوں ، ان پر ایمان لاتا ہوٓں اور میرے بچوں میں سے جو بھی ان سے ملاقات کرے ان پر ایمان لائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: https://hawzah.net/fa/Magazine/View/2689/6601/77027

۲: شیخ صدوق صدوق ، کمال الدین وتمام النعمة، ص ۱۷۴؛ و راوندی، الخرائج والجرائح، ج ۳، ص ۱۰۷۵؛ و مجلسی، بحار الأنوار، ج ۱۵ ص ۱۴۴ ۔

۳: مجلسی ، محمد تقی ، روضه المتقین، ج ۱۲، ص۲۲۱ ۔

۴: مجلسی ، محمد باقر، بحار الأنوار، ج ۳۵، ص۱۴۸۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 82