صلح حدیبیہ کے بعد کہ جو مشرکین مکہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درمیان حدیبیہ نامی مقام پر 6 ھجری قمری کو انجام پائی ، پورے جزیرہ عرب خصوصا مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور مسلمانوں کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا ،[1] اسی کے ساتھ مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے اسلامی حکومت کے تشکیل کا پروگرام بھی طے پایا اور اسلامی حکومت کو فوج ، بیت المال اور جو کچھ بھی ایک اسلامی حکومت کے لئے لازم و ضروری تھا فراھم کیا گیا ۔ [2]
اسلام پھیلنے کے ساتھ ساتھ اسلام مخالف عناصر جو اسلام کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ محسوس کررہے تھے انہوں نے اسلام کے خلاف سازشوں اور مقابلہ کا اغاز کردیا اور اسلام سے مسلحانہ جنگ شروع کردی ۔[3]
ان میں یہودی جو اہل حجاز میں سب سے زیادہ قدرت مند تھے اور جنگی ساز و سامان سے بھی سے بخوبی اگاہ تھے اور ان کے پاس قلعہ اور محافظت کی جگہ بھی تھی نیز مال و دولت اور سرمایہ کی فراوانی تھی ،[4] انہوں نے اسلام کے خلاف سخت موقف اپنایا ، ان لوگوں نے جنگ احزاب اور دیگر جنگوں میں بھی اسلام کے دشمنوں کا ساتھ دیا تھا اور حتی رسول خدا (ص) کے قتل کی سازش رچی تھی اور مشرکین کے لئے جاسوسی کرتے تھے ۔[5]
قلعہ خیبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی سازش کا مرکز تھا [6] کہ جس کا ختم ہوجانا ضروری و لازمی تھا لہذا سن 7 ھجری قمری میں رسول خدا (ص) نے ارادہ کیا [7] کہ اس قبیلہ اور فتنہ کے مرکز کو جو مسلسل اسلام کے خلاف فعالیتیں انجام دینے میں مصروف رہا ہے اور اس سے مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے [8]، اس سے پہلے کہ وہ کوئی نئی مشکل اور مصیبت کھڑی کردیں ، اپنے کنٹرول میں لے لیں ۔ [9]
اور چونکہ مشرکین رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ «حدیبیہ» میں 10 سال کی مدت کے لئے صلح نامہ پر دستخط کرچکے تھے آنحضرت نے اطمینان اور پوری بے فکری کے ساتھ «خیبر» فتح کرنے اور فتنہ کی بنیاد کو ڈھا دینے کا ارادہ بنا لیا ۔ [10] در حقیقت «صلح حدیبیہ» فتح خیبر اور اس کینسر کے ٹیومر کے خاتمہ کا زمینہ اور مقدمہ قرار پایا کہ جو اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اور توسیع کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا ۔ [11]
فتح خیبر، جنگ دفاعی یا جنگ ابتدائی
صدر اسلام کی جنگوں میں شاید یہ تصور کیا جائے کہ «جنگ خیبر» جهاد ابتدائى تھا مگر تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ «جنگ خیبر» جهاد ابتدائی نہیں بلکہ جهاد دفاعی تھا کیوں کہ قلعہ خیبر یہودیوں کی فتنہ پروری ، ان کی شیطنت ، سازشوں اور فساد کا مرکز تھا اور رسول خدا (ص) نے اپنے اس حملے ان کا منھ توڑ جواب دینے کا ارادہ کیا تھا جس میں وہ لوگ اکثر و بیشتر شریک تھے لہذا خیبر کی جنگ بھی دفاعی جنگ تھی ابتدائی جنگ نہ تھی ۔ [12]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] تفسير نمونہ، ج 22، ص15.
[2] پيام قرآن، ج 8، ص69.
[3]گزشتہ حوالہ.
[4] تفسير نمونہ، ج 4، ص452.
[5] پيام قرآن، ج 10، ص349.
[6] طبرى، ج2، ص 298 ؛ و ابن هشام، ج 3، ص342.
[7] پيام قرآن، ج 8، ص33.
[8] مديريت و فرماندهى دراسلام، ص36.
[9] قرآن و آخرين پيامبر، ص289.
[10] مديريت و فرماندهى در اسلام، ص36.
Add new comment