ازدواجی زندگی میں جو غلط عقیدہ موجود ہے وہ یہ کہ میاں اور بیوی یہ سوچیں اور تصور کریں کہ فقط عشق و محبت کے وسیلہ شادی کی جاسکتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی دشواری پیش نہ ائے گی جبکہ یہ ایک غلط اور خطرناک تصور ہے کیونکہ جیسے ہی اپس میں کسی قسم کا اختلاف ہوگا کہ جو ہر ازدواجی زندگی کا لازمہ ہے ، دونوں یہ گمان کریں گے ہماری شادی غلط ہوئی ہے اور اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہوسکتی ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اس کا ہمسفر اس کے لئے غلط اور نامناسب ہے ، جبکہ اگر ازدواجی زندگی میں یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ جس سے بھی شادی کرتے مشکلات سے روبرو ہوسکتے تھے لہذا انہیں مشکلات سے نمٹنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا کہ جو ایک ہنر ہے اور دونوں کو اپنے اس ہنر کو تقویت دینا چاہئے ۔
لڑکے اور لڑکی کا ہم پلہ ہونا
دوسری چیز جو ہر کسی کے ذہن میں اتی ہے وہ یہ کہ ہر کسی کو اپنے ہم پلہ اور اپنے جیسے سے شادی کرنا چاہئے ، اس طرح ان لوگوں کی زندگی بہتر گزرے گی جبکہ میاں بیوں کے لئے مفاہمت ، ان کی شخصیت اور اقدار اہم ہیں ، ان کی شباہت نہیں ، ظاھری اختلاف ازدواجی زندگی کی نابودی کا سبب نہیں ہوتا بلکہ اس اختلاف اور فرق کے ساتھ غلط رویہ انتخاب کرنا مشکلات کا باعث بنتا ہے ، اسی لئے احادیث میں بھی شادیوں کے لئے ظاھر کو معیار نہیں بنایا گیا بلکہ تقوائے الھی کو معیار بنایا گیا ۔ (۱)
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لِمالِها وَ كَلَهُ اللّهُ اِلَيْهِ، وَ مَنْ تَـزَوَّجَها لِجَمالِها رَأى فِيـها ما يَـكْرَهُ، وَ مَنْ تَـزَوَّجَها لِدِينِـها جَـمَعَ اللّهُ لَـهُ ذلِـكَ ۔ْ (۲)
اگر کوئی کسی لڑکی سے مال و دولت کی وجہ سے شادی کرے تو خداوند متعال اسے مال و دولت کے سہارے ہی چھوڑ دے گا اور اگر کوئی حسن و جمال کی وجہ سے شادی کرے تو وہ اس کے اندر ان چیزوں کو پائے گا جو اسے پسند نہ ہوگی لیکن اگر کوئی کسی سے اس کی دینداری کی وجہ سے شادی کرے تو خداوند متعال اس کے لئے تمام چیزیں یعنی مال و دولت ، حسن و جمال اکٹھے کردے گا ۔
امام رضا علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: إن خَطَبَ إلَيكَ رَجُلٌ رَضِيتَ دِينَهُ و خُلُقَهُ فَزَوِّجْهُ ولا يَمنَعْكَ فَقرُهُ و فاقَتُهُ ، قالَ اللّه ُتعالى : «و إن يَتَفَرَّقا يُغْنِ اللّه ُ كُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ» و قالَ : «إنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللّه ُ مِن فَضْلِهِ ···»
اگر کوئی انسان تمھارے یہاں رشتہ لیکر ائے اور اس کا دین و اخلاق تمھارے مورد پسند ہے تو اس سے رشتہ کرلو ، ہرگز اس کا فقر اور اس کی ناداری تمھارے اس عمل میں رکاوٹ کا سبب نہ بنے کیوں کہ خداوند متعال کا ارشاد ہے : «و إن يَتَفَرَّقا يُغْنِ اللّه ُ كُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ» (۳) اور فرمایا : «إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ» ۔ (۴) (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: https://btid.org/fa/news/276450
۲: حرعاملی ، شیخ محمد بن حسن ، وسائل الشیعه، ج ۱۴، ص ۳۱ ۔
۳: سورہ نساء ، ایت ۱۳۰ ۔
۴: قران کریم ، سورہ نور ، ایت ۳۲ ۔
۵: محمدی ری شهری ، محمد ، میزان الحکمة، ج ۴، ص ۲۸۰ ۔
Add new comment