ب : یہ مقدس نورانی ہستیاں جن کے خدا سے رابطہ ہیں ، جن کی زبانوں میں تاثیر ہے ، جو اسمان و زمین کے درمیان رسی ہیں اپنے اور اپنے خدا کے درمیان دعاوں کی قبولیت کے لئے واسطہ قرار دیا ہے ، جیسا کہ عیاشی نے روایت کی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ’’ واعتصموا بحبل الله جمعیاً ‘‘ (۱) کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: اس ایت کریمہ میں ’’حبل اللہ‘‘ سے مراد ’’علی ابن ابی طالب علیہ السلام‘‘ کی ذات گرامی ہے ۔
ایک دوسری سند سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہے کہ اپ نے فرمایا ’’ ال مُحَمَّدٍ (صلی الله علیه و آله) هُمْ حَبْلُ اللَّهِ الَّذِی أُمِرَ بِالِاعْتِصَامِ بِهِ ؛ ال محمد (صلی الله علیه و آله) خدا کی رسی ہیں کہ انہیں تھامنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ (۲)
حضرت امام صادق علیہ السلام سے بھی اس سلسلہ میں روایت ہے کہ اپ نے فرمایا : وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعاً قَالَ نَحْنُ الْحَبْلُ ؛ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ، پھر [امام علیہ السلام نے] فرمایا : ہم ہیں خدا کی رسی ۔ (۳)
اور علی ابن ابراھیم نے روایت نقل کی ہے کہ ’’حبل الله‘‘ خدا کی وحدانیت اور اہل بیت اطھار علیہم السلام کی ولایت ہے ، امام محمد باقر علیہ السلام نے ’’ فِی قَوْلِهِ وَلا تَفَرَّقُوا ‘‘ کے سلسلہ میں فرمایا: قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی عَلِمَ أَنَّهُمْ سَیَتَفَرَّقُونَ بَعْدَ نَبِیِّهِمْ وَ یَخْتَلِفُونَ فَنَهَاهُمْ عَنِ التَّفَرُّقِ کَمَا نَهَی مَنْ کَانَ قَبْلَهُمْ فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَجْتَمِعُوا عَلَی وَلَایَهْ آلِ مُحَمَّدٍ (علیه السلام) وَ لَا یَتَفَرَّقُوا ؛ چونکہ خداوند متعال کو معلوم تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد امت میں اختلاف ہوجائے گا اور امت فرقوں میں بٹ جائے گی اسی بنیاد پر یہ انہیں اختلاف اور تفرقہ سے منع کیا گیا جیسا کہ گذشتہ امتوں کو بھی اختلاف و فرقہ سے منع کیا تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی امت کو ال محمد علیہم السلام کی ذات پر متحد اور متفق ہونے کی تاکید کی ۔ (۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ ال عمران ، ۱۰۳۔
۲: تفسیر اهل بیت علیهم السلام ج۲، ص۷۱۶ ؛ مجلسی ، محمد باقر، بحارالأنوار، ج۲۴، ص۸۵ ؛ تفسیرعیاشی، ج۱، ص۱۹۴ ، تفسیرعیاشی، ج۱، ص۱۰۲ ۔
۳: تفسیر اهل بیت علیهم السلام ج۲، ص۷۱۶
۴: تفسیر اهل بیت علیهم السلام ج۲، ص۷۲۰ ؛ مجلسی ، محمد باقر، بحارالأنوار، ج۳۶، ص۲۰ ؛ تفسیر قمی، ج۱، ص۱۰۸ ۔
Add new comment