تمام مذاہب ، ادیان اور اقوام عالم میں منجی (نجات دہندہ) کا نظریہ پایا جاتا ہے اور یہ نظریہ ایک ایسے منجی ، مسیحا اور نجات دینے والے کی امید دلاتا ہے جو ہمیں مشکلات سے نجات عطا کرے گا بدبختیوں سے باہر نکالے گا ظلم و ستم سے چھٹکارا دلائے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردے گا جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے جیسا کہ روایات میں امام زمانہ عج کے سلسلے سے بیان ہوا ہے کہ آپ زمین کو اسی طرح سے عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح سے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی۔ (۱)
مقدمہ :
اس سے پہلے کہ اس عنوان کے تحت کچھ مطالب پیش کئے جائیں مناسب ہے کہ چند بنیادی کلمات اور مطالب کی وضاحت کردیں تاکہ عنوان مزید روشن ہوسکے اور گفتگو کا مرکزی نکتہ مزید واضح ہوجائے مثلا کلمہ نجات کے کیا معنی ہیں ؟ دین ابراہیمی سے ہماری کیا مراد ہے ؟۔
الف : نجات کا معنی
آخرالزمان میں منجی اور نجات دہندہ کے تصور میں جو لفظ نجات آیا ہے اس سے ہماری مراد اخروی نجات نہیں ہے اخروی سعادت نہیں ہے کیونکہ اخروی سعادت اور اخروی نجات انسان کے عقیدہ پر موقوف ہے انسان کے اعمال پر موقوف ہے انسان کے اخلاق و کردار پر موقوف ہے جیسا انسان کا عقیدہ ہوگا ، عمل ہوگا ، اخلاق ہوگا اسی کے مطابق پروردگار عالم جنت یا دوزخ میں داخل کرے گا جزا یا سزا دے گا (۲) اگرچہ وہاں شفاعت کا عقیدہ ہے کہ کچھ ہستیاں خدا کے اذن سے دوسروں کی شفاعت کریں گی (۳) اور ان کی نجات کا باعث ہوں گی لیکن سردست یہ موضوع ہماری گفتگو کا محور اور عنوان بحث نہیں ہے۔
پس آخرالزمان میں منجی اور نجات دہندہ کے تصور میں جو لفظ نجات آیا ہے اس سے ہماری مراد دنیا میں بدبختی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے دنیا میں ظلم و ستم کی چکی سے نجات حاصل کرنا ہے دنیا میں رنج و تکلیف کا دور ہونا ہے اگرچہ ایسی دنیاوی نجات جو اخروی نجات و سعادت کا بھی سبب ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: العسكري ، نجم الدين ، المهدي الموعود المنتظر عند علماء أهل السنة و الامامية ، ج ۱ ، ص ۳۹ ، يملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت ظلما و جورا ، آپ نے اس حدیث کو مندرجہ ذیل منابع سے نقل کیا ہے : مستدرك الصحيحين للحاكم النيسابوري ، ج ۴ ، ص ۵۵۷ ؛ الملاحم و الفتن للسيد ابن طاوس ص ۸۹ باب (۶۳) ؛ مصابيح السنة للبغوي ج ۲ ص ۱۳۴ ؛ سنن أبي داود ج ۲ ص ۱۳۱ و ۲۰۸۔
۲: بطور نمونہ چند مصادیق پیش کر رہے ہیں : سورہ عصر آیت ۱۔۲۔۳ ، وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ، قَسم ہے زمانے کی یقیناً (ہر) انسان گھاٹے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے اور ایک دوسرے کو حق کی اورصبر کی نصیحت کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ آیت ۸۲ ، وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ، اور جو لوگ ایمان لائے اور (اس کے ساتھ ساتھ) نیک عمل بھی بجالائے یہی لوگ بہشتی ہیں اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، وغیرہ۔۔۔
۳: سورہ بقرہ آیت ۲۵۵ ، مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ، کون ہے جو اس کی (پیشگی) اجازت کے بغیر اس کی بارگاہ میں (کسی کی) سفارش کرے؟ ، سورہ انبیاء آیت ۲۸ ، وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ ، اور وہ کسی کی شفاعت نہیں کرتے سوائے اس کے جس سے خدا راضی ہو۔
Add new comment