فساد، بدعنوانی ، رشوت، سود خوری، ظلم و جنایت یہ تمام چیزیں اسلام کی نگاہ میں حرام عمل ہیں، اسلام نے کسی بھی صورت انہیں قبول نہیں کیا کیوں کہ ان میں سے بعض کی حالت فتنہ کے مانند ہے کہ اگر معاشرہ میں پھیل گیا تو پورا کا پورا معاشرہ فاسد ہوجائے گا ، جیسا کہ قران کریم نے فرمایا: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ؛ اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین (جن لوگوں نے فتنہ پروری کی ہے) کو پہنچنے والا نہیں ہے (دوسروں کے بھی دامن گیر ہوگا)۔ (۱)
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام رشوت لینے اور دینے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و قد عَلِمتُم أنَّهُ لا يَنبَغِي أن يكونَ الوالِي على الفُرُوجِ و الدِّماءِ و المَغانِمِ و الأحكامِ و إمامَةِ المسلمينَ البَخِيلُ ··· و لا المُرتَشِي في الحُكمِ ؛ فَيَذهَبَ بالحُقوقِ ، و يَقِفَ بِها دُونَ المَقاطِعِ ۔ (۲) اور اپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناموس ، جان ، غنمیت، احکام اور رہبریت کے ذمہ دار، ہرگز بخیل انسان کو نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مسند قضاوت پر رشوت لینے والا ہو کہ اس حالت میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے اور حق حقدار تک نہیں پہونچے گا۔
یا مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سود خوری کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَ مُؤْكِلَهُ وَ كَاتِبَهُ وَ شَاهِدَيْهِ ؛ خداوند عزوجل نے سود خور ، سود دینے والے اور سود لکھنے والے پر لعنت کی ہے ۔ (۳) چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: دِرْهَمُ رِبا أَعْظَمُ عِنْدَ اللّه مِنْ سَبْعينَ زِنْيَةً بِذاتِ مَحْرَمٍ فى بَيْتِ اللّه الْحَرامِ وَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُونَ جُزْءاً فَأَيْسَرُهَا مِثْلُ أَنْ يَنْكِحَ اَلرَّجُلُ أُمَّهُ فِي بَيْتِ اَللَّهِ اَلْحَرَامِ ؛ سود کا ایک درہم خداوند متعال کے نزدیک ۷ بار محارم کے ساتھ خانہ خدا میں زنا کرنے سے بدتر ہے اور فرمایا : سود کے ستر اجزاء ہیں کہ ان میں سے سب سے کم، مرد کا اپنی ماں کے ساتھ خانہ خدا میں نکاح کرنا ہے ۔ (۴)
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ظلم و جنایت کے سلسلہ میں فرمایا : اَلظُّلْمُ ثَلاثَةٌ: فَظُلْمٌ لايَغْفِرُهُ اللّه ُ وَظُلْمٌ يَغْفِرُهُ وَظُلْمٌ لايَتْرُكُهُ، فَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لايَغْفِرُ اللّه ُ فَالشِّرْكُ قالَ اللّه ُ: «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى يَغْفِرُهُ اللّه ُفَظُلْمُ الْعِبادِ أَنْفُسَهُمْ فيما بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لا يَتْرُكُهُ اللّه ُ فَظُلْمُ الْعِباد ِبَعْضُهُمْ بَعْضا ؛ ظلم کی تین قسمیں ہیں ، ایک وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے ، دوسرے وہ ظلم جو قابل بخشش ہے اور تیسرے وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے ۔ وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے وہ خدا کو شریک قرار دینا ہے اور اس سلسلہ میں فرمایا : «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» اور وہ ظلم جو قابل بخشش ہے وہ بندے کا خود پر ظلم ہے اور وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، ، سورہ انفال ، ایت ۲۵ ۔
۲: نہج البلاغۃ ، خطبة ۱۳۱ ۔
۳: شیخ صدوق، من لایحضره الفقیۃ ج۴ ، ص۸ ، ح ۴۹۶۸ ؛ و شیخ صدوق، امالى، ص۴۲۵، ح۱ ۔
۴: مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۱۱۷، ح ۱۳؛ و حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیرنورالثقلين، ج ۱، ص۲۹۵، ح۱۱۷۷۔
۵: پاینده ، ابوالقاسم، نہج الفصاحۃ، ح۱۹۲۴۔
Add new comment