حضرت زہرا علیها السلام کی سیاسی جدوجہد کے اہم محور (۲)

Sat, 12/09/2023 - 08:55

گذشتہ سے پیوستہ

مگر امام علی علیہ السلام نے اپنی ذھانت و فراست ، عمیق سیاسی اور سماجی بینش سے ان کے مذموم ارادہ کی تہہ کو سمجھ لیا کہ اگر اصحاب کے درمیان اختلاف کی اگ بھڑک اٹھی تو ابوسفیان اور اس کے فرزند پیروز میدان ہوں گے لہذا ان سے فرمایا: «تم اس کام کے درپے ہو جو مجھے پسند نہیں (۱) تم مدتوں اسلام اور مسلمانوں کے بدخواہ تھے»۔ (۲)

ب: اصحاب کے درمیان اختلاف، اسلام دشمن عناصر کو کچلنے میں کُندی کا سبب بنتا اور حتی جزیرة العرب سے دور دراز نئے مسلمانوں کی ناامیدی اور اسلامی معاشرہ میں ہرج مرج پھیلنے کا باعث ہوتا ، نتیجتاً مدینہ کی حکومت کی بنیادیں لرزاٹھتیں اور مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کوششوں پر پانی پھرجاتا نیز جزیرة العرب کے اندر اور باہر پھیلتا ہوا اسلام روکاوٹوں سے روبرو ہوجاتا ۔

۴: حکومت وقت کے خلاف امام علی السلام کا اعتراض یا اپ کا قیام ، قدرت اور حصول منافع کی کوشش سمجھا جاتا کیوں کہ اس دور کے کوتاہ نظر ، متعصب اور جاہلی افکار کے مالک افراد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی پاک نیت کو ہرگز نہیں سمجھ سکتے تھے ، لہذا اپ پر جاہ طلبی اور آمریت کا الزام لگاتے اور کہتے کہ علی علیہ السلام نے اپنے نفس ، اپنے مطالبات اور اپنی خواہشات کو امت اسلامیہ کے مطالبات و خواہشات پر مقدم رکھا اور آمرانہ عمل کیا ۔

لہذا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مجبور ہوکر ۲۵ سال تک خاموشی اور گوشہ نشینی اپنائی تاکہ مسلمانوں کے درمیان پڑنے والے شگاف کو روک سکیں ، امام علی علیہ السلام خود اپنی خاموشی کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «فرایت ان الصبر علی ذلک افضل من تفریق کلمة المسلمین وسفک دمائهم والناس حدیثوا عهد بالاسلام والدین یمخض مخض الوطب یفسده ادنی وهن و یعکسه اقل خلف ؛ میں نے اس حادثہ پر صبر، مسلمانوں کا خون بہانے اور ان میں اختلاف ڈالنے سے بہتر پایا کہ لوگ تازہ مسلمان ہیں اور ان کا دین دودھ کے مخزن کی طرح پھیٹ دیا جائے گا ، اور کمترین سستی اسے خراب کردے گی اور کمترین خلاف ورزی اسے پلٹ کر رکھ دے گی»۔ (۳)

لہذا امام علی علیہ السلام کی خاموشی اور اپ کا سکوت ملت اسلامیہ میں اتحاد کا سبب ، تنگ نظروں کی ناکامی اور اسلامی حکومت کے استحکام باعث بنا مگر ایک بنیادی مسئلہ باقی رہ گیا اور وہ یہ کہ اپ کی خاموشی سے خلافت اپنے حقیقی راستہ سے ہٹ گئی اور پھر اس بات کا خوف پیدا ہونے لگا کہ اگر خاندان اهل بیت علیهم السلام اسی راستہ پر گامزن رہے تو اہستہ اہستہ خلافت کے راستہ میں برائیاں جنم لینے لگیں اور اصحاب ، تابعین اور مستقبل میں مسلمانوں کے درمیان سے خلافت ، ولایت کا تصور ختم ہوجائے نیز تاریخ سے شیعوں کا وجود مٹ جائے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: سید علی خان مدنی، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة، ص ۸۷ ۔

۲: عبدالحمید بن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج ۲، ص ۴۵ ۔

۳: وہی ، ج ۲، ص ۳۰۸۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 56