غزہ میں انسانیت لہولہان (۲)

Thu, 12/07/2023 - 09:08

گذشتہ سے پیوستہ

نہج البلاغہ خطبہ نمبر۲۴۴ میں سب سے پہلے آپ ظلم کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : خدا گواہ ہے کہ میرے لئے سعدان کی خار دار جھاڑی پر جاگ کر رات گزارلینا یا زنجیروں میں قید ہو کر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ہے کہ میں روز قیامت پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی بندہ پر ظلم کرچکا ہوں یا دنیا کے کسی معمولی مال کو غصب کیا ہو بھلا میں کسی شخص پر بھی اس نفس کے لئے کس طرح ظلم کروں گا جو فنا کی طرف بہت جلد پلٹنے والا ہے اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے۔ (۱)

اس کے بعد آپ مزید فرماتے ہیں : خدا کی قسم! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں کہ صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہ کروں گا۔ یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔ علیؑ کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا واسطہ!۔ (۲)

اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام مندرجہ بالا فقرہ ارشاد فرماتے ہیں : ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔ (۳)

قرآن و روایات میں لفظ ’’سبات‘‘ کے معنی ہیں سوجانا کام نہ کرنا معطل ہوجانا ، جیسا کہ پروردگار عالم قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے : اور ہم نے تمہاری نیند کو راحت و آرام کا ذریعہ قرار دیا۔ (۴) اور رات کو اس لئے آرام کے لئے بنایا گیا ہے کیونکہ کام کاج کے رک جانے اور تعطیل کا وقت ہے لہذا رات کو آرام کا وقت قرار دیا گیا ہے ، پس کلمہ سبات سوجانے ، معطل ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

لہذا امیرالمومنین علیہ السلام عقل کی تعطیلی سے خدا کی پناہ مانگتے ہوئے فرماتے ہیں : نَعُوذُ بِاللَّه مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ یعنی عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ (۵)

اس خطبہ میں آپ ، عقل کی تعطیلی اور خواب غفلت میں چلے جانے کی نشانیاں مندرجہ ذیل بتاتے ہیں :

الف۔ ظلم کرنا حتی ایک چیونٹی پر۔

ب۔ دنیا کی فانی اور تمام ہوجانے والی نعمتوں سے دل بستہ ہوجانا۔

ج۔ دنیا کی ان موقت لذتوں پر اکتفا کرنا اور راضی ہوجانا جو ہماری آخرت کو تباہ و برباد کردیں۔

لہذا مغربی افکار اور صہیونیسم کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں ظلم کی عادت ہوگئی ہے اور انہیں لوگوں کے حقوق ضائع کرنے میں مزہ آتا اور یہ دنیا کی لذتوں میں غرق ہیں لہذا ان کی عقلیں معطل ہوگئی ہیں انہون نے اپنی فطرت سے منھ موڑ لیا ہے اور یہ ابتدائی باتیں بھی انہیں سمجھ میں نہیں آتیں اگرچہ یہ سب سمجھ رہے ہیں لیکن ان کی عقلون پر تالے لگ گئے ہیں اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج مغربی طرز تفکر اور صہیونی سوچ کے باعث دنیا میں تباہیاں ہیں غزہ لہو لہان ہے انسانیت سسک رہی ہے۔

ہم سب کو بھی ہمیشہ اس بات کی فکر میں رہنا چاہئے کہ کہیں ہماری فکر تو تعطیل نہیں ہوگئی ہے ہم میں بھی یہ صفات تو پیدا نہیں ہوگئی ہیں تعطیلی عقل بشریت کی بہت بڑی مصیبت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱: نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۲۴ ، وَاللهِ! لَاَنْ اَبِیْتَ عَلٰی حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّدًا، وَ اُجَرَّ فِی الْاَغْلَالِ مُصَفَّدًا، اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَلْقَی اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ظَالِمًا لِّبَعْضِ الْعِبَادِ، وَ غَاصِبًا لِّشَیْءٍ مِّنَ الْحُطَامِ، وَ كَیْفَ اَظْلِمُ اَحَدًا لِّنَفْسٍ یُّسْرِعُ اِلَی الْبِلٰی قُفُوْلُهَا، وَ یَطُوْلُ فِی الثَّرٰی حُلُوْلُهَا؟!۔

۲: نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۲۴ ، واللَّه لَوْ أُعْطِيتُ الأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا - عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّه فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُه - وإِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي لأَهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فِي فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا - مَا لِعَلِيٍّ ولِنَعِيمٍ يَفْنَى ولَذَّةٍ لَا تَبْقَى۔

۳: نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۲۴ ، نَعُوذُ بِاللَّه مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ وقُبْحِ الزَّلَلِ وبِه نَسْتَعِينُ۔

۴: قرآن الکریم ، سورہ نبأ ، آیت ۹ ، وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا۔

۵: نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۲۴ ، ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی ، ص ۴۵۶ ، نَعُوذُ بِاللَّه مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 86