ہمیشہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں اپنے گھر اور گھرانے میں «امابیها؛ اپنے باپ کی ماں» کہا کرتے تھے ، رسول خدا سے سوال کیا گیا کہ کیا حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے دور اور اپنے زمانہ کی خواتین کی سردار ہیں یا ہر دور اور ہر زمانے کی خواتین کی سردار ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا : « فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ اَلْعَالَمِينَ مِنَ اَلْأَوَّلِينَ وَ اَلْآخِرِينَ» حضرت فاطمہ زھراء[سلام اللہ علیہا] اولین و اخرین یعنی ہر دور کی خواتین کی سید و سالار ہیں ، پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نے فرمایا کہ «کانَتْ مَرْیَمُ سَیِّدَةَ نِساءِ زَمانِها» جناب مریم [علیہا السلام]اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں مگر میری بیٹی فاطمہ[سلام اللہ علیہا] سارے زمانے کی خواتین کی سید و سردار ہیں۔ (۱)
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ ہیں ۔ (۲)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بہترین شریک حیات
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کہ حیات کا ایک اور پہلو جسے مورد گفتگو قرار دیا جانا چاہئے اور تمام انسانوں خصوصا ملت اسلامیہ کے لئے سرمشق قرار پانا چاہئے وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مشترکہ حیات اور ازدواجی زندگی کا گوشہ ہے کہ ہم اس مقام کچھ باتوں کی جانب اشارہ کررہے ہیں:
۱: قناعت اور سادہ زیستی
دینی، قرانی اور الہی تعلیمات کے تحت انسانوں کی مشترکہ حیات اور ازدواجی زندگی احسان، کرامت ، نیکی ، عشق ، محبت اور پیار کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے تاکہ قرانی فرمائشات کے مطابق ازدواجی حیات چین و سکون اور آرامش کا سبب رہے، جیسا کہ قرآن نے فرمایا: «اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں»۔ (۳)
امام علی علیہ السلام ازدواجی حیات اور میاں بیوی کے آپسی رابطے اور تعلقات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہرگز فاطمہ کو ناراض نہیں کیا اور جو انہیں پسند نہیں تھا اس پر مجبور نہیں کیا یہاں تک کہ وہ اپنے خدا کے پاس تشریف لے گئیں ، جب بھی میں انہیں دیکھتا تھا میرا غم اور میری پریشانیاں ختم ہوجاتیں ، میرے چہرے سے غم کے بادل چھٹ جاتے ۔ (۴)
جاری ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شیخ صدوق، امالی ، ص۱۷۵۔ «اَمَّا ابْنَتِى فاطِمَةُ فَهِىَ سَیِّدَةُ نِساءِ الْعالَمِینَ مِنَ الاَوَّلِینَ وَ الاْخِرِینَ»۔
۲: شیخ طوسی، الغیبۃ، ص۲۸۶۔ «إنَّ لِي في إبنَةِ رَسولِ اللّه ِ اُسوَةٌ حَسَنةٌ»۔
۳: قران کریم ، سورہ روم، ایت۲۱ ۔ «وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ»۔
۴: كشف الغمّة، ج ۱، ص ۳۶۳ ۔ «فَوَاللّه ِ ما اَغْضَبْتُها و لااَكْرَهْتُها عَلى اَمْرٍ حَتّى قَبَضَهَا اللّه ُ ـ عَزَّوَجَلَّ ـ اِلَيْهِ و لااَغْضَبَتْنى وَ لاعَصَتْ لى اَمرا وَ لَقَد كُنْتُ اَنْظُرُ اِلَيْها فَتَنْـكَشِفُ عَنِّى الْهُمومُ وَ الاَحْزانُ»۔
Add new comment