امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیرت کے چند گوشے(۲)

Tue, 10/24/2023 - 05:46

تعقل اور تفکر کی دعوت

امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب پتہ چلا کہ اس زمانہ کا فیلسوف اسحاق کندی تناقضات قرآن پر ایک کتاب لکھ رہا ہے آپ نے اس کے شاگردوں سے فرمایا کہ تم میں کوئی مرد رشید نہیں ہے جو اسے اس کام سے منصرف کرے ، شاگردوں نے کہا کہ ہم اس کے شاگرد ہیں ہم کیسے اسے روک سکتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ کیا میرا پیغام اس تک پہونچا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ امام نے فرمایا کہ جاؤ اور اس سے انس پیدا کرو اور جو کام انجام دے رہا ہے اس میں اس کی مدد کرو پھر اس سے کہو میرے ذہن میں ایک سوال آرہا ہے ، کیا دریافت کرسکتے ہیں؟ جب تمہیں سوال کی اجازت دے تو اس سے پوچھنا کہ اگر قرآن کا لکھنے والا تمہارے پاس آئے اور کہے میرا منظور وہ نہیں تھا جو تم سمجھ رہے ہو۔ وہ کہے گا ممکن ہے۔ جب وہ مثبت جواب دے تو اس سے کہنا کہ آیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قرآن سے جو مطلب تم سمجھ کر یہ کتاب لکھ رہے ہو شاید خدا کا منظور وہ معنی نہ ہوں اور تم مراد متکلم کے برخلاف معنی سمجھ کر اس کے خلاف کتاب لکھ رہے ہو۔ وہ شاگرد گیا اور جیسا امام نے کہا تھا اس نے اسی طرح سوال کیا ، اسحق کندی نے کہا دوبارہ سوال کرو اور وہ فکر میں چلا گیا اور شاگرد سے پوچھا صحیح بتاؤ یہ سوال تمہارے ذہن میں کہاں سے آیا اس شاگرد نے کہا ابو محمد حسن عسکری نے یہ بتایا ہے ، یہ سن کر کندی بولا اب تم نے حق کہا ایسے سوال صرف اس خاندان سے ہی نکل سکتے ہیں اور یہ کہہ کر اس نے وہ مسودہ جو تناقضات قرآن پر لکھ رہا تھا اسے جلا دیا (۱)۔

امام نے انسانوں کو تفکر اور تعقل کی دعوت دی اور یہ سمجھایا کہ عقل و فکر کو استعمال کرکے بہت سے مسائل کو سمجھا جاسکتا ہے اور دشمنوں سے مقابلہ کا ایک راستہ یہ ہے کو انہیں عقل و فکر کی دعوت دی جائے اور ان کے شعور کو زندہ کیا جائے کیونکہ اگر وہ غور و فکر سے کام لیں گیں تو ان کے لئے حق تک پہونچنا آسان ہوگا۔

اسی طرح امام علیہ السلام اپنی ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : جاہل کی صحبت سے بچو اگرچہ وہ ناصح ہی کیوں نہ ہو اور عاقل کی دوری سے پرہیز کرو اگرچہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جاہل تمہیں اسی جگہ نقصان پہچان دے گا جہاں سے نفع کی امید ہو اور عقلمند کی مروت اس چیز کو روک دے گی جو عداوت پیدا کرنے کا سبب ہو(۲)۔

جاری ہے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱: محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار، ج ۵۰، ص ۳۱۱ و ج ۱۰، ص ۳۹۲۔ مناقب ابن شهرآشوب جلد ۴ ص ۴۲۴  ، أبو القاسِمِ الكوفيِّ في كِتابِ التَّبديلِ : إنَّ إسحاقَ الكِنديِّ كانَ فيلسوفَ العِراقِ في زَمانِهِ أَخَذَ في تَأليفِ تَناقُضِ القُرآنِ وَشَغَلَ نَفسَهُ بِذلك وَتَفَرَّدَ بِهِ في مَنزِلِهِ وَإنَّ بَعضَ تَلامِذَتِهِ دَخَلَ يَوما عَلى الإمامِ الحَسَنِ العَسكَريِّ فَقالَ لَهُ أبو مُحَمَّدٍ عليه السلام : أما فيكُم رَجُلٌ رَشيدٌ يَردِعُ أستاذَكُم الكِنديِّ عَمّا أخَذَ فيهِ مِن تَشاغُلِهِ بِالقُرآنِ ؟ فَقالَ التِّلميذُ : نَحنُ مِن تَلامِذَتِهِ كَيفَ يَجوزُ مِنّا الإعتِراضُ عَليهِ في هذا أو في غَيرِهِ ، فَقالَ لَهُ أبو مُحَمَّدٍ : أتُؤَدّي إليه ما ألقيهِ إليكَ ؟ قالَ : نَعَم قالَ : فَصِر إلَيهِ وَتَلَطَّف في مُؤانَسَتِهِ وَمَعونَتِهِ عَلى ما هُوَ بِسَبيلِهِ فَإذا وَقَعَتِ الأُنسَهُ في ذلك فَقُل قَد حَضَرَتني مَسألَةٌ أسألُكَ عَنها فَإنَّهُ يَستَدعي ذلك مِنكَ فَقُل لَهُ إن أتاكَ هذا المُتَكَلِّمُ بِهذا القُرآنِ هَل يَجوزُ أن يَكونَ مُرادُهُ بِما تَكَلَّمَ مِنهُ غَيرَ المَعاني الَّتي قَد ظَنَنتَها أنَّكَ ذَهَبتَ إليها ؟ فَإنَّهُ سَيَقولُ لَكَ إنَّهُ مِنَ الجائِزِ لأنَّهُ رَجُلٌ يَفهَمُ إذا سَمِعَ ، فَإذا أوجَبَ ذلك فَقُل لَهُ : فَما يُدريكَ لَعَلَّهُ قَد أرادَ غَيرَ الَّذي ذَهَبتَ أنتَ إلَيهِ فَتكونَ واضِعا لِغَيرِ مَعانيهِ . فَصارَ الرَّجلُ إلى الكِنديِّ وَتَلَطَّفَ إلى أن ألقى عَلَيهِ هذِهِ المَسألَةَ فَقالَ لَهُ : أعِد عَلَيَّ ، فَأعادَ عَلَيهِ فَتَفَكَّرَ في نَفسِهِ وَرأى ذلك مُحتَمَلاً في اللُّغَةِ وَسائِغا في النَّظَرِ فَقالَ : أقْسَمْتُ عَليكَ إلاّ أخبَرتَني مِن أينَ لَكَ ؟ فَقالَ : إنَّهُ شَيءٌ عَرَضَ بِقَلبي فَأورَدتُهُ عَلَيكَ ، فَقالَ : كَلاّ ما مِثلُكَ مَن اهتَدى إلى هذا وَلا مَن بَلَغَ هذِهِ المَنزَلَةَ فَعَرِّفني مِن أينَ لَكَ هذا ؟ فَقالَ : أمَرَني بِهِ أبو مُحَمَّدٍ فَقالَ : الآنَ جِئتَ بِهِ وَما كانَ لِيَخرُجَ مِثلَ هذا إلاّ مِن ذلك البَيتِ ؛ ثُمَّ إنَّهُ دَعا بِالنّارِ وَأحرَقَ جَميعَ ما كانَ ألَّفَهُ

۲: سید آغا مہدی لکھنوی ، العسکری ع حصہ دوم ، ص ۲۱۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39