یہ جنگ ابھی منطقی انجام کی تلاش میں ہے

Mon, 10/23/2023 - 10:10

تجزیہ نگار : عادل فراز

غزہ کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔اسرائیل مسلسل فضائی حملے کررہاہے جس میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہورہاہے ۔فلسطینیوں نے کلیسا اور مسجدوں میں یہ سوچ کر پناہ لی تھی کہ شاید اسرائیلی فوجیں مذہبی عمارتوں پر حملے نہیں کریں گی ،مگر جن کا مذہب جنگ اور خوں ریزی ہوانہیں مندر ،مسجد اور کلیسا سے مطلب نہیں ہوتا ۔اسرائیلی فوج کھلے عام درندگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور نام نہاد حقوق انسانی کی تنظیمیں فقط ہمدردی کا اظہار کررہی ہیں ۔غزہ کے لوگوں پربجلی اور پانی کی سپلائی بند ہے ،رسد گاہوں کو معطل کردیاگیاہے ۔

غزہ تک انسانی امداد پہونچانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے ۔سینکڑوں امدادی ٹرک مصر کی ’رفح کراسنگ‘ پر داخلے کے منتظر ہیں ،مگر اسرائیل مشروط اور محدود اجازت دے رہاہے ۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ’رفح کراسنگ ‘ پر موجود ہیں مگران کی موجودگی بے معنی نظر آرہی ہے۔اگر اقوا م متحدہ جیسی حقوق انسانی کی تنظیمیں جنگ بندی اور جنگ زدہ علاقوں میں انسانی امداد کی ترسیل میں کلیدی کردار ادانہیں کرسکتیں تو ان تنظیموں کے ہونے کا فائدہ کیاہے ؟اس وقت غزہ میں طبی صورت حال بدتر شکل اختیار کرچکی ہے ۔زخمیوں کے علاج کے لئے دوائیاں اور ضروری سامان موجود نہیں ہے ۔ اسپتال فضائی حملے میں منہدم ہوچکے ہیں ۔محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں ۔رپورٹ کے مطابق غزہ کی پچاس ہزار سے زائد حاملہ خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔

لاشوں کے انبار لگے ہیں جنہیں دفنانے کی جگہ نہیں ہے ۔اس کے باوجود امریکی صدر جوئے بائیڈن فلسطین کی امداد کے بجائے اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آئے ۔کیونکہ اسرائیل امریکہ کی پیداوار ہے اور اس کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل دم تک نہیں مارسکتا۔یہی وجہ کے جوئے بائیڈن نے حماس اور پوتین کا موازنہ کرتے ہوئے کہاکہ جمہوریت کو پامال کرنے میں دونوں کے عزائم مشترکہ ہیں ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب جنگ لبنان کی سرحدوں کی طرف جارہی ہے ۔

حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی سرحدوں اور فوجوں پر حملے شروع کردئیے ہیں ۔اس جنگ کا منطقی انجام ابھی طے نہیں ہے کیونکہ کئی ملکوں کی مزاحمتی فوجیں اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ نظر آرہی ہیں ۔ایک طرف حزب اللہ لبنان کی سرزمین سے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کرچکاہے ،تو دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی اسرائیل کے ساتھ جنگ کا عندیہ دیاہے ۔حزب اللہ کی طرف سے عراق میں موجود امریکی ائیربیس ’عین الاسد‘ پر بھی حملہ کیا گیا۔عراق میں حشد الشعبی اور کتائب حزب اللہ جیسے مزاحمتی گروپ بھی موجود ہیں جنہوں نے داعش کے خلاف اپنی طاقت کا لوہا منوایا تھا ۔

ابھی ان گروپوں کی طرف سے مزاحمت اور مقاومت کی خبریں موصول نہیں ہوئی ہیں ،لیکن اگریہ جنگ لبنان ،یمن اور شام کی سرحدوں کی طرف منتقل ہوتی ہے تو پھر عراقی مزاحمتی گروپ بھی اس جنگ میں داخل ہوں گے ۔اس حقیقت کو اسرائیل اور اس کے حلیف ملک بخوبی جانتے ہیں کہ ان تمام مزاحمتی گروہوں کے پس پشت ایران کھڑا ہے ۔ایران بھی خطےمیں تنہا نہیں ہے بلکہ وہ اس ورلڈ آڈر کا حصہ ہے جو امریکہ کے خلاف وجود میں آیاہے ،اس لئے اس جنگ کے منطقی انجام کے بارے میں ابھی بات کرنا جلدبازی ہوگی! اسرائیل حزب اللہ کی طاقت اور فوجی توانائی سے بخوبی واقف ہے ۔اس سے پہلے بھی ان کے درمیان ۳۳ دنوں تک پنجہ آزمائی ہوچکی ہے ۔اس کے بعد بھی گاہے بہ گاہے سرحدوں پر دونوں کی طرف سے حملے ہوتے رہتے ہیں ۔

۳۳روزہ جنگ کے وقت حزب اللہ بہت مضبوط نہیں تھا لیکن اس کے جوانوں کے جذبۂ شہادت اور عسکری مقاومت نے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیاتھا ۔آج کا حزب اللہ کل کے حزب اللہ سے بہت مختلف ہے ۔عالمی طاقتیں بخوبی جانتی ہیں کہ شام اور عراق میں داعش کو شکست دینا حزب اللہ کے جنگجوئوں کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔آج بھی شام میں حزب اللہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجودہے ۔حزب اللہ نے وقت کے ساتھ اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیاہے ۔اس کے پاس دنیاکے بہتر جنگجو اور جدترین ہتھیار موجود ہیں ۔ آج کا حزب اللہ جنگی سازو سامان میں خود کفیل ہے جس کی طاقت سے امریکہ اور اس کے حلیف ملک اچھی طرح باخبر ہیں ۔اس لئے اس جنگ کو کسی ایک سرحد پر نہیں لڑاجائے گا بلکہ مختلف سرحدوں پر لڑے جانے کا امکان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے دنیا بھر میں موجود اپنے شہریوں کے لئے الرٹ جاری کیاہے ۔وہیں برطانیہ نے بھی اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کا مشورہ دیاہے ۔اگر اس جنگ میں امریکہ کے حلیف ملک اسرائیل کے ساتھ آتے ہیں تو انہیں بھی دنیا بھر میں موجود اپنےشہریوں کے لئے الرٹ جاری کرنا پڑے گا۔

دنیا کے بیشتر ممالک اس جنگی منظرے نامے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ۔ خاص طورپر وہ ملک جو امریکہ اور اس کے مخالف ورلڈ آڈر کا حصہ ہیں ۔عرب ملک اظہار ہمدردی اور یکجہتی سے آگے نہیں بڑھے ۔ مصر نے تو فلسطینی شہریوں کو اپنی سرحدوں میں داخلے کی اجازت تک نہیں دی ۔اگر تمام عرب ملک اتفاق رائے کے ساتھ اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے تو حالات مختلف ہوتے ۔اوآئی سی کے اجلاس میں بھی عرب ملکوں نے کسی بنیادی نکتہ پر بات نہیں کی ۔جبکہ ایران نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے اسرائیل کے بائیکاٹ کا مشور ہ دیا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی ملکوں کو غزہ کے مظلوم عوام تک ادویات ،خوراک اور انسانی امداد پہونچانے کے لئے راستے کھولنے کے لئے ضروری اقدام کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ صیہونی حکومت کے جرائم کا جائزہ لینے کے لئے انسانی حقوق کونسل کا اجلاس بھی فوری طور پر منعقد ہونا چاہیے،نیز غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ حملوں کا سلسلہ فوری طورپر رکوا یا جائے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہاکہ تمام اسلامی ملک صیہونی حکومت سے اپنے سفارتی روابط منقطع کریں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہاکہ عرب ملکوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تیل اور گیس کی تجارت بند کردیں۔لیکن ایران کے اس مشورے پر عرب ملکوں نے کان نہیں دھرا۔ ظاہر ہے عربوں کی تجارت کا انحصار یوروپی ملکوں پر ہے ۔اسرائیل اور امریکہ جیسے ملک ان کے تیل کے بڑے خریدار ہیں ،اس لئے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی تیل کی تجارت متاثر ہو۔ جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کا اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا جو بے نتیجہ رہا ۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کےاجلاس میں برازیل نے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی ،جسے امریکہ نے ویٹو کردیا۔روس چین اورایران سمیت کئی ملکوں نے امریکی اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیاہے ۔

امریکی صدر جائے بائیڈن نے اسرائیل کے دورے پر فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تک نہیں کیا بلکہ غزہ کے اسپتال پر حملے کی ذمہ داری بھی حماس کے سر عائد کردی۔ان کا رویہ جنگ بندی میں پیش قدمی کے بجائے جنگ کے شعلے بھڑکانے والا تھا ،جس کے بعد صورت حال مزید سنگین ہوگئی ۔ بائیڈن کی پشت پناہی کے بعد اسرائیل نے ہر اس عمارت کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جہاں بے گھر مظلوم فلسطینی پناہ گزیں ہیں ۔ اسرائیلی فوجوں نے تاریخی مسجد’العمری الکبیر ‘ اور ’کلیسا‘ پر بھی بم برسائے جس میں سینکڑوں زخمی اور شہید ہوئے ۔

ہندوستان بھی خطے کے ناگفتہ بہ حالات سے بے خبر نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا ،لیکن اگلے کچھ ہی دنوں میں وزارت خارجہ نے فلسطین کے تئیں اپنی سابقہ پالیسی کا اعادہ کرتےہوئے مذاکرات کے ذریعہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کی وکالت کی۔اس کے باوجود اسلاموفوبیا کے شکار بعض لوگ مسلسل حکومت ہندسے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی کھلی حمایت کا اعلان کرے ۔ اس کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی نے فلسطین پر ہندوستان کے موقف کا اعادہ کیا ۔انہوں نے غزہ کے اسپتال پر ہوئے حملے میں مرنے والے سینکڑوں لوگوں کی موت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کی ۔

وزیر اعظم نے فلسطینی صدر محمود عباس سے فون پر رابطہ قائم کرتے ہوئے فلسطین کو دی جانے والی انسانی مدد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ۔ہندوستان کے ساتھ پوری دنیا نے غزہ میں اسپتال پر ہوئے حملے کی مذمت کی ،مگر کسی نے اس حملے کو دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیا۔اگر حماس کا اسرائیل پر حملہ دہشت گردی سے تعبیر کیا گیا تو غزہ کے اسپتال،مسجدوں اور چرچ میں موجود بے گناہ زخمیوں پر ہوئے حملوں کو کن بنیادوں پر دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیاگیا؟ظاہرہے نام نہاد امن پسند اور مہذب دنیا اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی ،کیونکہ دہشت گردی اسی منافقانہ رویے کی پیدوار ہے ۔

صاحب قلم: عادل فراز

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 52