امام حسین علیہ السلام بزرگان بصرہ کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ «و أنا أدعوكم إلى كتاب اللّه و سنّة نبيّه صلّى اللّه عليه [وآله] و سلّم فانّ السنّة قد اميتت، و انّ البدعة قد احييت، و إن تسمعوا قولي و تطيعوا أمري اهدكم سبيل الرشاد » ۔ (۱)
میں تم لوگوں کو کتاب خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں کیوں کہ پیغبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی سنت مٹ چکی ہے اور بدعتوں نے اس کی جگہ لے لی ہے ، اگر تم لوگ میری باتوں کو سنو اور میری اطاعت و پیروی کرو تو تمہیں راہ راست کی جانب ھدایت کروں گا ۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت نے فرمایا : « قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع كَانَ فِي وَصِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع لِأَصْحَابِهِ اعْلَمُوا أَنَّ الْقُرْآنَ هُدَى اللَّيْلِ وَ النَّهَارِ وَ نُورُ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ جَهْدٍ وَ فَاقَةٍ فَإِذَا حَضَرَتْ بَلِيَّةٌ فَاجْعَلُوا أَمْوَالَكُمْ دُونَ أَنْفُسِكُمْ وَ إِذَا نَزَلَتْ نَازِلَةٌ فَاجْعَلُوا أَنْفُسَكُمْ دُونَ دِينِكُمْ وَ اعْلَمُوا أَنَّ الْهَالِكَ مَنْ هَلَكَ دِينُهُ وَ الْحَرِيبَ مَنْ حُرِبَ دِينُهُ أَلَا وَ إِنَّهُ لَا فَقْرَ بَعْدَ الْجَنَّةِ - أَلَا وَ إِنَّهُ لَا غِنَى بَعْدَ النَّارِ لَا يُفَكُّ أَسِيرُهَا وَ لَا يَبْرَأُ ضَرِيرُهَا » ۔ (۲)
اميرالمؤمنين علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اپنے اصحاب کو یہ نصیحت ہے کہ اگاہ رہو کہ قران شب و روز کے لئے ھادی ہے یعنی قران کریم ہر حال میں انسانوں کے لئے ہادی ہے ، قران گھٹا ٹوپ تاریک راتوں میں نور کے مانند ہے ، تمام مشکلات اور ہر ضرورت کے وقت راہ نجات ہے ، لہذا اگر کوئی مصیبت آ پہنچے تو اپنے مال کو اپنی جان کی ڈھال بنا لو اور اگر ایسا حادثہ پیش اجائے جو دین سے متعلق ہے اور شھادت کے سوا وہ حادثہ نہ ٹلے تو اپنی جان دین پر قربان کردو ، جان لو کہ ہلاک ہونے والوں میں سے وہ لوگ ہیں جن کا دین تباہ و برباد ہوگیا ، غارت زدہ اور لٹا ہوا وہ انسان ہے جس کے دین کو لوٹ لیا جائے ، آگاہ رہو کہ بھشت پانے کے بعد فقر ختم ہوجاتا ہے اور جہنم میں جانے کے بعد بے نیازی نہیں رہ جاتی کیوں کہ دوزخ کسی کو چھوڑی نہیں اور اندھے کو روشنی نہیں ملتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ابو مخنف ازدى ، وقعة الطف، ص۱۰۷ ۔
۲: کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۲۱۶ ۔
Add new comment