معنویت کا فقدان ، تجمل گرائی و اشرافیت کا رجحان

Thu, 08/18/2022 - 06:10

قیام عاشورا کے دیگر اسباب و علل میں سے سن ۶۰ ھجری قمری کے مسلمانوں میں معنویت کا فقدان ، دنیا پرستی ، تجمل گرائی و اشرافیت کی جانب بڑھتا ہوا رجحان ہے کیوں حادثہ کربلا میں یہ بات بخوبی دیکھنے کو ملتی ہے کہ لشکر یزید جنگی غنائم کی لوٹ مار ، یزید ملعون کی جانب سے ملنے والے انعامات کی لالچ کی وجہ سے کربلا ایا تھا ، پسر سعد اور اس جیسے لوگوں نے شھر ری اور دیگر علاقوں کی حکومت کی لالچ میں ولی خدا سے جنگ کی ٹھانی تھی اور اپ کا مقدس خون بہایا تھا ، وہ دنیا کی حصول میں اندھے بن چکے تھے اور ناچیز و حقیر چیز کے بدلے اخرت جیسی عظیم اور گراں قدر چیز کو فروخت کردیا تھا ، شیطان صفت لوگ ولی خدا کے مقابلہ میں اگے ، اپ پر ، اپ کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر ، اپ کے اہل حرم پر اور تمام وفادار ساتھیوں پر پانی بند کردیا اور انہیں تین دن کا بھوکا اور پیاسا شھید کردیا ۔

« منقول ہے کہ حضرت امام حسین علیہ ‌السلام نے عمر سعد نے سے گفتگو کرتے ہوئے اسے اپنی شھادت کی بنیادوں کے سلسلہ میں اگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تم نے جس وجہ سے میرے قتل پر کمر کسی ہے تمہیں وہ مراد نہ مل سکے گی ، جان لو کہ شھر ری کا گیہوں ایک دانا بھی نہ کھا سکو گے مگر اس دنیا پرست نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی بات پر یقین کرنے کے بجائے اپ کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر گیہوں کا دانا نہ کھانے نہ ملا تو جو ہی کافی ہے ۔» (۱)

دینی غیرت کا زوال

قیام عاشورا کے دیگر اسباب و علل میں سے «دینی غیرت کا زوال اور اس کا ختم ہوجانا ہے» ، دینی غیرت یعنی کسی کو بھی دینی حدود پائمال کرنے کی اجازت نہ دینا ، دین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو منھ توڑ جواب دینا ، نیکیوں کی تبلیغ اور برائیوں سے روکنا یعنی امر بالمعروف و نھی عن المنکر کرنا ، دین کے دفاع کا جزبہ رکھنا اور اپنی تمام زندگی کو دین کی راہ میں قربان کرنے کی ھمت رکھنا ۔

امام حسین علیہ السلام کے نے مدینہ سے لیکر کربلا پہنچنے تک بارہا و بارہا اس بات کو فرمایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین مٹ چکا ہے ، معاشرے میں بدعتیں رائج ہوچکی ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت پائمال ہوگئی ہے ۔ (۲) یعنی سن ۶۱ ھجری میں اسلامی معاشرہ سے دینی غیرت مکمل طور سے ختم ہوچکی تھی ۔

امام حسین علیہ السلام نے یزید ملعون کی بیعت سے انکار کرنے کے بعد جب ۲۸ رجب کو مدینہ سے مکہ کی جانب اور پھر وہاں سے کربلا کی جانب کوچک کیا تو اپ کا بس ایک ہی نارہ تھا « إنّي لَم أخرُجْ أَشِراً و لا بَطِراً و لا مُفسِداً و لا ظالِماً و إنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإصلاحِ في اُمَّةِ جَدّي اُرِيدُ أن آمُرَ بِالْمَعرُوفِ و أنهي عَنِ الْمُنكَرِ و أسِيرُ بِسيرَةِ جَدّي وَ أبي عَليِّ بنِ أبي طالِبٍ عليه السّلام »  

میں نے تخت و تاج حاصل کرنے اور اسلامی معاشرہ میں فساد و ستم پھلانے کے لئے قیام نہیں کیا بلکہ میرا ارادہ یہ ہے کہ اپنے جد [حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم] کی امت کی اصلاح کرسکوں ، میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر انجام دوں اور اپنے جد [حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم] اور اپنے والد [ حضرت علی مرتضی علیہ السلام ] کی سیرت پر چلوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: ابن نما حلی ، مثیر الاحزان و منیر سبل الاشجان ، ص۴۰۸ ۔

۲: ابو مخنف ازدى ، وقعة الطف، ص۱۰۷ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66