روایت نے روز غدیر کو ایک اور نام بھی دیا ہے اور وہ « يوم دحرالشيطان » شیطان کو نکالے جانے اور شیطانی چالبازوں کو بھگانے کا دن ہے ۔
«دحر» لغت میں بھگانے اور نکالنے کے معنی میں ہے ، غدیر کے دن دین خدا کامل ہوجانے کے بعد شیطان مومنین کی صفوں سے نکال دیا گیا کیوں کہ دین کے کامل ہونے سے شیطان ھرگز خوش نہ تھا ، اسے ناتمام اور ادھورا دین ہی پسند تھا ، شیطان نے دنیا کے کفار و مشرکین خصوصا کفار و مشرکین مکہ سے وعدہ کر رکھا تھا اور انہیں اطمینان دِلا رکھا تھا کہ مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد پرسکون سانس لے گا مگر واقعہ غدیر نے اس کے تمام وسوسہ اور اس کی تمام چالوں کو نقش بر اب کردیا، لہذا جس طرح امام علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے کفار و مشرکین نا امید و مایوس ہوگئے اسی طرح شیطان بھی مایوس اور ناامید ہوگیا ۔
امام ہشتم علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ « يوم مرغمه الشيطان » غدیر، زمین پر شیطان کی ناک رگڑنے کا دن ہے ۔
دلیلوں کا دن
روایت نے روز غدیر کو ایک اور نام سے بھی یاد کیا ہے اور وہ « يوم البرهان » یعنی غدیر دلیلوں کا دن ہے ۔
قرآن كريم نے يہودیوں اور نصارى کو جو بہشت فقط اپنے سے مخصوص جانتے تھے شدید مذمت کی اور کہا : « لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ؛ کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ یہودی اور نصاری ہو » مگر قران نے ان سے دلیل کا مطالبہ کیا اور کہا : « قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ » اگر تم لوگ اپنی باتوں میں سچے ہو تو دلیل لاو ۔ (۱)
روز غدیر اہل ولایت و راہ امامت پر چلنے والوں کی حقانیت کا دن ہے ، اہل ولاء کی دلیل تاریخ اسلام پر موجود وہ سنہرے ورق ہیں جس پر غدیر کی تفصیل تحریر ہے اور اگر مخالفین غدیر اپنی باتوں میں سچے ہیں تو وہ بھی دلیل قائم کریں ۔
قضاوت اور فیصلہ کا دن
روایت نے روز غدیر کو ایک اور نام سے بھی یاد کیا ہے « هذا يوم الفصل الذى كنتم توعدون » (۲) اج کا دن جدائی کا دن ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا ۔
روز غدیر ، حق اور باطل میں جدائی کا دن ہے ، در حقیقت غدیر کی قیامت سے تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ خداوند متعال نے قران کریم میں فرمایا : « هَٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ » (۳) اج کا دن وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ایک دوسری ایت میں یوں فرمایا « هَٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ » یہ وہی جدائی کا دن ہے جسے تم لوگ جھوٹ سمجھتے تھے ۔ (۴)
اس تشبیہ میں دو نکتہ پوشیدہ ہے :
۱: جس طرح قیامت کے دن حق اور باطل میں جدائی ہوجائے گی ، غدیر کے دن بھی فرقہ ناجیہ کہ جو مومن اور ولایتمدار ہیں اور صراط مستقیم پر ہیں ، دیگر گمراہ فرقہ سے الگ ہوگئے ۔
۲: جس طرح کفار و مشرکین قیامت کے منتظر نہ تھے اور اسے ناممکن سمجھتے تھے ، ولایت کے دشمن بھی روز غدیر کے منتظر نہ تھے اور انہیں گمان بھی نہ تھا کہ خداوند متعال پیغمبر اسلام (ص) کا جانشین معین فرمائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سوره بقره ، آیت ۱۱۱ ۔
۲: حسینی حائری ، محمد بن ابی طالب ، تسلیة المُجالس و زینة المَجالس (مقتل الحسین علیه السلام) ، ج ۱ ، ص ۲۲۳ ۔
۳: قران کریم ، سوره نساء ، ایت ۱۰۳ ۔
۴: قران کریم ، سوره صافات ، آیت ۲۱ ۔
Add new comment