ذی الحجہ سن 10ہجری میں حجۃ الوداع کے مراسم تمام ہوئے حج کے بعد رسول اکرم (ص) نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے، قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔ جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر جو کہ احرام کے میقات کی جگہ ہے اور ماضی میں یہاں سے عراق، مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہوجاتے تھے، رابغ نامی سرزمین جو کہ اب بھی مکہ اور مدینہ کے بیچ میں واقع ہے پر پہنچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا "یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ؛ اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجیے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ " (سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷ )
لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ، جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹائے گئے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اور گرمی اپنے شباب پرتھی ؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے، پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر بلند و رسا آواز میں خطبہ غدیر خم ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا : " من کنت مولاہ فھذا مولاہ ؛ جس جس کا میں مولیٰ ہوں یہ اس کے یہ [علی] اس کے مولا ہیں " اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ، اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں ۔
اپنے وقت کے بڑے بڑے عرب شعراء جیسے ابن رومی ، وامق نصرانی ، حمانی، تنوخی ، ابوفراس حمدانی، بشنوی کردی ، کشاجم ، ناشی صغیر، صاحب بن عباد ، مھیار دیلمی ، ابو العلا معری ، اقساسی ، ابن عرندس ، ابن عودی، ابن داغر حلی ، بولس سلامہ مسیحی نے غدیر کے سلسلہ میں اشعار کہے ہیں ۔
شعرائے عرب کے علاوہ فارسی ، اردو اور ترکی زبان کے شعراء نے بھی غدیر کے مطالب کو شعر میں ڈھال کر غدیر کے پیغام کی حفاظت اور اس کو نشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، دوسرے بعض شعراء نے غدیر کے فقط حساس مطلب ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌ مَوْ لَاہُ “ کو شعر میں نظم کر کے غدیر کے پیغام کی حفاظت کی ہے، ایک گروہ نے غدیر کے ادبی اور اعتقادی پہلو کو شعر میں نظم کیا ہےاور جہا ں تک ان سے ممکن ہوا انہوں نے غدیر کے معنوی پہلو کو اشعار میں ڈھال کر ایک شیعہ شخص کی زندگی کو نشاط بخشی ہےکہ جب بھی وہ اشعار پڑھےجاتے ہیں تو ان سے ان کے جسم و روح میں ولایت کی خنکی کا احساس ہوتا ہے۔
غدیر کے اشعار سے متعلق کتابوں کی تدوین بعض موٴلفین نے غدیر سے متعلق اشعار کو کتابوں میں جمع کیا ہے اور غدیر کی اس ادبی اسناد کو منظم اور مرتب مجموعوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔
غدیر اور عرب شعراء
سید حمیری :
وکم قد سمعنا من المصطفی وصایا مخصَّصة فی علیّ
وفی یوم خم رقی منبراً یبلغ الرکب و الرکب
لم یرحل فبَخبَخَ شیخک لمّا رآی عری عقد حیدر لم تحلل
ترجمہ:
ہم نے علی کے سلسلہ میں رسول گرامی سے کتنی زیادہ خصوصی سفارشیں سُنی ہیں اور غدیر خم کے میدان میں آپ منبر پر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر موجود افراد تک حکم الٰہی پہنچایا ۔ اس وقت جب تمہارے بزرگ نے دیکھا کہ حیدر کے عقدوں کو کھلتے ہوئے نہیں دیکھا تو مبارکباد پیش کی ۔
ابن رومی:
قال النبی لہ مقالاًلم یکن یوم الغدیر لسامعیہ مُجمجماً من کنت مولاہ فھذا مولی لہ مثلی واٴصبح بالفخار متوّجاً
ترجمہ :
نبی(ص) نے غدیر کے میدان م میں علی (ع) کے متعلق ایک ایسی بات کہی جو سامعین کےلئے مبہم نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولاہو ں اس کے علی بھی مولا ہیں چنانچہ آپ کے سرپر فخر کا تاج پہنا دیا گیا ۔
شریف رضی :
غدر السرور بنا وکان وفاوٴہ یوم الغدیر
یوم اٴطاف بہ الوصی وقد تلقّب بالاٴمیر
فتسلّ فیہ وردَّعا ریة الغرام الی المعیر
ترجمہ :
خوشی نے ہم سے بے رخی کی اور وفاداری غدیر کے دن کی ۔ جس دن میدان غدیر میں رسول(ص) کے وصی علی (ع) پہنچے لہٰذا غدیر کے دن اپنا غم دور کرو اور آسودہ خاطر ہوکر رہو ۔
غدیر اور تر کی شعراء :
یوسف شھاب :
امامی حضرت باری گرَگ ایدہ تعیین محوّل ھر کَسَہ او لماز امور ربانی
منا دی آیہ ٴ قرآنیدور،علیدی ولی علینی رد ایلین ،رد ایدو بدی قرآنی
منہ وصی ، سیزہ اولی بنفسدوربو علی مباد ترک ایلیہ سیز بو وصایانی
بو امر امر الھیدی ، نہ مینم راٴییم امین وَحیِدی نا زل ایدن بو فرمانی
دو توب گو گہ یوزین عرض ایتدی اول حبیب خدا کہ ای خدا ئے روؤف و رحیم و رحمانی
عم او غلو می دو تا دشمن او کس کہ دشمن دوت محب و نا صر ینہ ،نصرت ایلہ ھر آنی
بو ما جرانی گو رندہ تمام دشمن و دو ست غریو و غلغلہ دن دو لدی چرخ دا ما نی
او کی محبیدی مسرور او لوب ،عدو غمگین نہ او لدی حدی سرور ونہ غصہ پایانی
ترجمہ :
امام کو خداوند عالم معین کرتا ہے یہ امر ربانی ہر شخص کے حوالےنہیں کیا جاسکتاہےعلی آیہ قرآن کے منادی اور خدا کے ولی ہیں، جس شخص نے علی کا انکار کیا اس نے خدا کا انکار کردیا ہے یہ علی میرے وصی اور تم میں سب سے اولیٰ ہیں ہر گز ان سفارشات کو ترک نہ کرنا یہ امر ، امر الٰہی ہےمیری اور تمہاری رائے نھیں ہےامین وحی نے یہ فرمان نازل کیا ہےحبیب خدا نے اپنی صورت آسمان کی طرف کرکے کہاے خداوند رؤوف و رحیم و رحمان جو شخص میرے چچازاد بھائی کا دشمن ہےتو اس کو دشمن رکھ جو اس کو دوست رکھےتو ہمیشہ اس کی مدد کر تمام دوست اور دشمنوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو دنیا میں خو شی کر لہر دوڑ گئی دوست خوشحال ہوگئے اور دشمن رنجیدہ ہوگئے غصہ کافور ہوگیا اور خو شی و شادمانی کے حالات پیدا ہوگئے ۔
غدیر اور فارسی شعراء :
فارسی ادبیات میں نثر لکھنے والوں نے غدیر کے سلسلہ میں زبر دست قطعے لکھےہیں جس کے ہم دو نمونہ ذیل میں پیش کر رہے ہیں :
نظیری نیشاپوری:
قسم بہ جان تو ای عشق ای تمامیِ ھست کہ ھست ھستیِ ماازخمِ غدیرِتومَست
در آن خجستہ غدیرتودید دشمن و دوست کہ آفتاب بود آفتاب برسرِدست
فرازمنبر یوم الغدیراین رمزاست کہ سرز جیب محمد علی برآوردہ
حدیث لحمک لحمی بیان این معناست کہ برلسان مبارک پیمبرآوردہ
ترجمہ :
" اے وجود کامل اے عشق تیری جان کی قسم کہ ہماری ہستی تیرے غدیر کے خم سے مست ہے "
تیرے اس خجستہ اور مبارک غدیر میں دشمن اور دوست نے دیکھاکہ ایک آفتاب دوسرے آفتاب کے ہاتھوں پرتھا۔
یوم الغدیر کے منبر کے اوپر یہ راز ہےکہ محمد کے وجود سے علی نکلے ۔ حدیث” لحمک لحمی“ اس معنی کی بیان گر ہےکہ جس کو نبی (ص) نے اپنی زبان پر جاری کیا“
حکیم ناصر خسرو :
بیا ویزد آن کس بہ غدر خدای کہ بگریزد از عھد روز غدیر
چہ گوئی بہ محشر اگر پرسدت از آن عھد محکم شبر یا شبیر
ترجمہ:
”جوشخص عہد غدیر سے فرار اختیار کرے گا وہ خداکے عذاب میں مبتلا ہوگا اگر تم سے اس شبیر و شبر کے محکم عہد کے بارے میں سوال کیا جائے تو تم کیا جواب دوگے “
سید مصطفی مو سوی گرما رودی :
گلِ ھمیشہ بھار غدیر آمدہ است شراب کھنہٴ ما
در خم جھان باقی است خدا گفت کہ (اکملت دینکم)
آنک نوای گرم نبی در رگ زمان باقی است
قسم بہ خون گل سرخ در بھارو خزان ولایت علی وآل جاودان باقی است
گل ھمیشہ بھارم بیا کہ آیہٴ عشق بہ نام پاک تو در ذھن مردمان باقی است
ترجمہ:
”میری بہار کا پھول ہمیشہ غدیر ہواہےدنیا کے خم میں ہماری کہنہ شراب باقی ہےخدا نے اس کے لئے اکملت کہا کیونکہ نبی کی گرم آواز زمانہ کی رگ میں باقی ہے-بہار و خزاں کے سرخ پھولوں کے خون کی قسم علی وآل کی ولایت ہمیشہ باقی رہےگی -میرے ہمیشہ بہاری رہنے والے پھول آ کیونکہ آیہ ٴ عشق تیرے پاک نام کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں باقی ہے–
غدیر اور شعراء:
اسلام کی تاریخ میں رسول کونین کی آخری حج اور غدیر خم کا خطبہ اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ کربلا۔ وہ یوں کہ اگر لوگوں نے غدیر کو نہ بھلایا ہوتا تو کربلا رو نما نہ ہوتی۔
آج کی شب چارسو گونجی صدائے یاعلی دے رہا ہے ہر گل ہستی نوائے یاعلی
طائر باغ مودت گنگنائے یاعلی رند میخانہ کے لب پر کیوں نہ آئے یاعلی
محفل توحید میں امشب اجالا ہوگیا آج کی شب دین حق کا بول بالا ہوگیا
جز خدا و جز نبی سب خلق سے اولی علی کیوں نہ میں کہہ دوں غدیری سب کا مولا ہے علی
کیا جو خالق ہستی نے اہتمام غدیر سنایا احمد مختار نے پیام غدیر
پڑھا تھا جس کو نبی نے بحکم رب جلیل سناؤ تم بھی غدیری وہی کلام غدیر
غدیر منزل انعام جا ودانی ہے غدیر مذ ہب اسلام کی جوانی ہے
غدیر دامن صدق و صفا کی دولت ہے غدیر کعبہ و قر آن کی ضما نت ہے
غدیر سر حد معراج آدمیت ہے غدیر دین کی سب سے بڑی ضرورت ہے
غدیر منزل مقصود ہے رسولوں کی غدیر فتح ہے اسلام کے اصولوں کی
متاع کون و مکاں کو غدیر کہتے ہیں چراغ خا نہٴ جاں کو غدیر کہتے ہیں
صدا قتوں کی زباں کو غدیر کہتے ہیں عمل کی روح رواں کو غدیر کہتے ہیں
غدیر منزل تکمیل ہےسفر نہ کہو نبی کی صبح تمنا ہےدو پھر نہ کہو
کوہ فاراں سے چلا وہ کا روان انقلاب آگے آگے مصطفےٰ ہیں پیچھے پیچھے بو تراب
فکر کے ظلمت کدے میں نور بر ساتا ہوا ذہن کی بنجر زمیں پر پھول بر ساتا ہوا
قافلہ تھا اپنی منزل کی طرف یوں گا مزن جیسے دریا کی روانی جیسے سورج کی کرن
خُلق پیغمبر بھی تیغ فا تح خیبر بھی ہے یعنی مر ہم بھی پئے انسانیت نشتر بھی ہے
ذہن کی دیوار ٹو ٹی باب خیبر کی طرح دل میں در وازے کھلے اللہ کے گھر کی طرح
مو ج نفرت میں محبت کے کنول کھلنے لگے خون کے پیا سے بھی آپس میں گلے ملنے لگے
بزم ہستی میں جلا ل کبریا ئی ہےغدیر بھر امت امر حق کی رو نما ئی ہےغدیر
اے مسلماں دیکھ یہ دو لت کہیں گم ہو نہ جا ئے مصطفےٰ کی زندگی بھر کی کما ئی ہےغدیر
تحریر: سیده معصومہ بتول
Add new comment