روایت نے غدیر کے دن کو فرشتوں کے دن سے یاد کیا ہے « هذا يوم الملاء الاعلى الذى انتم عنه معرضون » (۱) اج کا دن بلند مرتبہ فرشتوں کا دن ہے کہ جس سے تم لوگوں نے رو گردانی کی ہے ۔
خطبہ غدیریہ کا یہ فقرہ اور ٹکڑا خداوند متعال کے اس کلام کا آئینہ ہے ۔ « لايسمعون الى الملاء الاعلى » ؛ وہ لوگ بلند مرتبہ فرشتوں کی باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں ۔ (۲)
غدیر کے لئے یہ تعبیر اس بات کی نشانی ہے کہ اس دن فرشتہ حکم خدا سے زمین پر نازل ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو اعلان ولایت امام علی علیہ السلام پر مامور کیا ۔
امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں « وهو اليوم الذى يامر جبرئيل ان ينصب كرسى كرامه بازاء بيت المعمور و يصعده جبرئيل و تجتمع اليه الملائكه من جميع السموات » (۳) امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے بعد ملائکہ نے محفل سجائی ، امام رضا فرماتے ہیں : اج کا دن وہ دن ہے جس دن جبرئیل نے بیت المعمور کے سامنےعظمتوں کی کرسی رکھنے کا حکم دیا ، وہ بذاتہ خود اس کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور ملائکہ ان کے ارد گرد اکٹھا ہوئے ۔
مزید فرمایا : « ان يوم الغدير فى السماء اشهر منه فىالارض » (۴) غدیر کا دن زمین سے زیادہ اسمان میں معروف ہے ۔
روز ہدایت و راہنمائی
روایت نے غدیر کے دن کو روز ہدایت و راہنمائی کے دن سے بھی یاد کیا ہے «هذا يوم الارشاد» اج کا دن روز راھنمائی ہے ۔
غدیر کا دن وہ دن ہے جس روز خداوند متعال نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے وسیلہ لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کی ، حقائق کو بیان کیا اور ولی امر کی معرفی کی ، رسول خدا نے بھی اخر میں یہ دعا فرمائی : « اللهم وال من والاه و عاد من عاداه واحب من احبه وابغض من ابغضه » (۵) خدایا ! علی [ع] کے چاہنے والوں اور محبوں سے محبت کر اور ان دشمنوں کو دشمن قرار دے ، علی [علیہ السلام] کے محبوں سے محبت کر اور ان سے نفرت کرنے والوں سے نفرت کر ۔
رسول اسلام (ص) نے ولایت کی راہ میں اس دعا کو امام علی (ع) سے محبت اور اپ سے دشمنی کا معیار قرار دیا ۔
غدیر؛ روز امتحان
روایت نے غدیر کے دن کو روز امتحان کا نام بھی دیا ہے « و يوم محنه العباد» اج کا دن بندوں کے امتحان کا دن ہے ۔
لغت میں لفظ "محنت" امتحان اور آزمائش کے معنی میں ہے اور غدیر روز امتحان و آزمائش ہے ، اس دن خداوند متعال نے ولایت امام علی علیہ السلام کی قبولیت اور اور اس پر ایمان کے وسیلہ انسانوں کا امتحان لیا ، جو لوگ بھی اس پر ایمان لے ائے اور اس کے پابند رہے وہ اس آزمائش اور امتحان میں سربلند اور سرفراز رہے اور جس نے بھی اس کا انکار کردیا ناکامی اور گھاٹے سے روبرو ہوئے کیوں کہ ولایت کا انکار در حقیقت رسالت سے دوری اور خدا کی وحدانیت کا انکار ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: حویزی ، عبد علی بن جمعه ، تفسير نور الثقلين ، ج ۴ ، ص۴۶۹ ۔
۲: قران کریم ، سوره صافات ، آیت 8 ۔
۳: عطاردی ، شیخ عزیز الله ، مسند الامام الرضا(ع)، ج۲، ص ۱۸ ۔
۴: مجلسی ، محمد باقر، زاد المعاد ، ج ۱ ، ص ۲۰۶ ۔
۵: امینی ، عبد الحسین ، الغدير ، ج ۱، ص ۱۱۔
Add new comment