سوال: کیا بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت جائز ہے ؟
شیعہ مراجع عظام کے جوابات:
۱: آیت الله العظمی سید علی خامنہ ای : اس کا حکم اسلامی جمھوریہ ایران کے قوانین کے تابع اور پیرو ہے ۔ (۱)
۲: آیت الله العظمی سید علی سیستانی : بٹ کوئن کی خرید و فروخت نہیں کرسکتے اور اس طرح کا معاملہ ناجائز ہے ۔
۳: آیت الله ناصر مکارم شیرازی : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی میں بہت سارے ابہامات ہونے کہ وجہ سے اس کی خرید و فروخت اشکالات سے روبرو ہے ۔
۴: آیت الله نوری همدانی : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کا معاملہ اشکال رکھتا ہے ۔ (۲)
۵: آیت الله وحید خراسانی : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت باطل ہے ۔
۶: آيت الله سید موسی شبيری زنجانی : اگر اس کرنسی کا استعمال قانون کے خلاف اور اقتصادی و معیشتی فساد کا سبب ہو تو اس سے ہر قسم کا معاملہ باطل ہے اور اگر قانون کے خلاف نہ ہو نیز حاصل ہونے والی رقم حلال کام کے عوض میں ہو تو پھر کوئی ھرج نہیں ہے ۔
۷: مرحوم آيت الله صافی گلپائگانی : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت حرام ہے اور باطل طریقے سے مال کھانا ہے ۔ والله العالم ۔ (۳)
۸: مرحوم آیت الله سید محمود هاشمی شاهرودی : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کے معاملے میں بہت سارے ابہامات موجود ہیں لہذا از کرنسی سے معاملہ جائز نہیں ہے ۔
۹: آیت الله سید محمد علی علوی حسینی گرگانی : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال ملک کے استقلال پر منحصر ہے اور ایت اللہ العظمی خامنہ ای کے نظریہ کے مطابق کوئی ہرج نہیں ہے ۔ »
۱۰: آیت الله یوسف صانعی : اگر پیسہ اور کرنسی ہو یا معاملہ انجام دینے والے اسے کرنسی یا وہ چیز جس کے ذریعہ معاملہ انجام دیا جاسکتا ہے ، جانتے اور پہچانتے ہوں تو اس کے استفادہ میں کوئی ھرج نہیں ہے ۔
۱۱: آیت الله محمد باقر موحدی نجفی : اگر بٹ کوئن عقلاء کے درمیان اور مارکیٹ میں معتبر کرنسی سمجھی جاتی ہو تو اس کے خرید و فروخت میں کوئی ھرج نہیں ہے ۔
۱۲: آیت الله محمد علی گرامی : اگر اس کرنسی کا سپورٹ اور اعتبار ہو تو کوئی ھرج نہیں ہے لیکن اگر اگر یورو وغیرہ کی طرح حکومتوں کی جانب سے یا عالمی منڈی میں اس کا سپورٹ اور اعتبار نہ ہو بلکہ فقط محدود افراد یا گروہ کی جانب سے اس کا سپورٹ کیا جائے اور فقط سوشل میڈیا پر رد وبدل ہو تو پھر شرعا اشکال رکھتا ہے ۔
نتیجہ : بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی میں چونکہ باطل اور غیر شرعی طریقہ سے مال کھانے اور ربا کا احتمال موجود ہے کہ جس کی جانب ایت اللہ لنکرانی نے بھی اپنے بیان میں اشارہ فرمایا ہے ، اس کرنسی سے معاملہ اور خرید و فروخت ناجائز ہے ۔ (۵)
علمائے اھل سنت اور سنی دارالافتاء سے پوچھے گئے سوال میں دریافت ہونے والے جوابات میں بھی اس کرنسی کی خرید و فروخت کو ناجائز اور اس سے معاملہ کو باطل بتایا گیا ہے ۔ (۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: استفتائات ایت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
https://www.leader.ir/fa/content/25476
۲: https://parsianbourse.com/article
۳: https://alirezamehrabi.com/cryptocurrency/training/crypto-in-islam
۴: https://atlaspress.af/%D8%AD%DA%A9%D9%85-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%A8...
۵: وہی ۔
Add new comment