علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں تحریر فرماتے ہیں کہ «خبیثات» و «خبیثین» سے مراد فاسد اور الودہ عورتیں ہیں جو «طیّبات» اور «طیّبون» کے مقابل ہیں اور «طیّبات» و «طیّبون» میں پاک طینت مرد و عورتوں کا تذکرہ ہے ۔ (۱)
ایک دوسری ایت شریفہ میں ارشاد ہے کہ «الزَّانِی لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَةً أَوْ مُشْرِکَةًوَالزَّانِیَةُ لَا یَنکِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ ؛ زانی مرد ، زانیہ یا مشرکہ عورت ہی سے نکاح کرے گا اور زانیہ عورت ، زانی یا مشرک مرد ہی سے نکاح کرے گی کیوں کہ یہ صاحبان ایمان پر حرام ہیں ۔ » (۲)
البتہ اس سلسلہ میں کہ مذکورہ ایت کریمہ حکم الھی بیان کرنے کے مقام میں ہے یا معاشرہ کے حالات سے خبر کرنے اور اطلاع دینے کے مقام میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر موجود ہے :
بعض مفسرین معتقد ہیں کہ ایت کریمہ فقط ایک حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ جن کا دامن الودہ ہے وہ الودگی کے پیچھے دوڑتے ہیں ، جو فاسد ہیں وہ فساد کے پیچھے رہتے ہیں یعنی ہم جنس ہم کے جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے اما پاکدامن اور با ایمان افراد ہرگز الودگی اور الودہ عورتوں کو اپنی بیوی کے طور پر منتخب نہیں کرتے ، ان سے دوریاں اپناتے ہیں اور انہیں خود پر حرام سمجھتے ہیں ، اس تفسیر پر دلیل و شاھد اور گواہ ایت کریمہ کا ظاھر ہے جو «جملة خبریّه» کی صورت میں ذکر ہوا ہے ۔ (۳)
مفسرین کا ایک دوسرا گروہ معتقد ہے کہ ایت کریمہ کا یہ جملہ حکم خدا اور شرعی حکم کو بیان کرتا ہے خصوصا مسلمانوں کو زنا کار افراد سے شادی اور بیاہ کرنے کو منع کیا گیا ہے کیوں کہ معمولا اخلاقی اور حتی پھیلنے والا جسمانی بیماری کا احتمال موجود ہے ۔ (۴)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور دیگر معصوم اماموں علیھم السلام سے منقول بہت ڈھیر روایتیں بھی موجود ہیں جو اس ایت کریمہ کو حکم کا رتبہ دیتی ہیں ، بعض بزرگ مفسرین اس ایت کریمہ کے شان نزول میں فرماتے ہیں کہ « مسلمانوں میں سے ایک فرد نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے «امّ مهزول» کہ جو جاہلیت کے زمانے میں اخلاقی فساد اور الودگیوں میں معروف تھی اور حتی اس نے شناخت کے لئے اپنے گھر کے دروازے پر جھنڈا لگا رکھا تھا ، شادی کی درخواست کی تو مذکورہ ایت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اپنی خواہش کا جواب ملا ۔ (۵)
ایک دوسری حدیث حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ « مذکورہ ایت کریمہ ان مرد و عورت سے متعلق ہے جو رسول خدا (ص) کے زمانے میں زنا سے الودہ تھے ، خداوند متعال نے مسلمانوں کو ان سے شادی کرنے کو منع کیا ہے اور عصر حاضر کے مسلمانوں پر بھی یہ حکم صادق ہے ، جو بھی یہ عمل انجام دے اس پر حد جاری کی جائے ، اس شادی نہ کی جائے یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے ۔ » (۶)
تناسب اور برابری کے مختلف گوشے اور جوانب ہیں ، لڑکے اور لڑکیاں دین اور ایمان میں ایک دوسرے کے جیسے اور برابر ہوں ، فکری ، ثقافتی اور اخلاقى حوالے سے ایک دوسرے کے جیسے اور برابر ہوں ، جسمانی اور جنسی حوالے سے بھی ایک دوسرے کے جیسے اور برابر ہوں ، اقتصادی ، سیاسی اور سماجی حوالے سے ایک دوسرے کے جیسے ہوں ، گھرانہ ، حسب و نسب ، علم و فضل و کمالات ، سن اور عمر ، روحانی اور نفسیاتی ہماہنگی وغیرہ میں بھی ایک دوسرے کے جیسے ہونا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: طباطبائی ، محمد حسین ، تفسیر المیزان، ج15 ، ص 95 ۔ و شیرازی، ناصر مکارم ، تفسیر نمونہ ، ج 14 ، ص 421 ۔
۲: قران کریم ، سورہ نور ، ایت 3 ۔
۳: شیرازی، ناصر مکارم ، تفسیر نمونہ ، ج 14 ، ص 361 ۔
۴: طبرسی، مجمع البیان ، ج 7 ، ص 117 ۔
۵: وہی ۔
۶: وہی ۔
Add new comment