رسول اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نقل ہے کہ حضرت نے فرمایا جسے بھی میرا دین فطرت یعنی دین اسلام پسند ہے وہ میری سنت پر عمل کرے اور نکاح میری سنت میں سے ہے ۔ (۱) نیز حضرت (ص) نے فرمایا کہ « اے جوانوں ! جس کے پاس بھی جنسی خواہشات و توانائی موجود ہے وہ شادی کرے کیوں کہ شادی انکھوں کی حفاظت اور شرمگاہ کے لئے بہتر ہے اور جس کے پاس بھی مالی توانائی اور قدرت موجود نہیں ہے وہ روزہ رکھے کیوں کہ روزہ شہوت کو ختم کردیتا ہے ۔ »
سعید بن جبیر نقل کرتے ہیں کہ « حج کے دوران سفر میری ابن عباس سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ شادی کیا ؟ ! میں نے کہا ابھی نہیں ، انہوں نے فرمایا : جاو شادی کرو ، دوسرے سال پھر ملاقات ہوئی اور انہوں ںے وہی سوال دھرایا کہ شادی کی ؟! میں جواب میں کہا کہ نہیں ، انہوں نے پھر کہا کہ جاو شادی کرو ، کیوں کہ اس امت کی بہترین فرد یعنی رسول خدا (ص) کے پاس سب زیادہ بیویاں تھیں ۔ » (۲)
ابوهریره کا کہنا ہے اگر دنیا کا ایک دن بھی بچا ہو تو بھی میں اپنی بیوی کے ساتھ خدا سے ملاقات کو جاوں گا ، میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ حضرت نے فرمایا : تم میں سب سے بدتر کنوارے ہیں اور فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس بھی اولاد ہو اور وہ اس کی شادی کروانے پر قادر ہو مگر اس کی شادی نہ کرائے اور پھر کوئی اتفاق پیش اجائے تو بچے کی گناہ باپ کے سر ہے ۔ » (۳)
نیز مرسل اعظم (ص) نے فرمایا کہ « خداوند متعال چار گروہ پر لعنت بھیجتا ہے ، ایک : جو بچے نہ پیدا نہ کرنے کے لئے شادی نہ کرے ، دو: جو خود کو عورتوں کے جیسا بنا لے اور اپنی عورت کو مردوں کے مشابہ بنا دے ، تین : جو لوگوں کو بیوقوف بنائے یعنی کسی نادار سے کہے کہ میرے پاس انا تو تمہیں دوں گا اور جب وہ ائے تو کہے کہ ابھی میرے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے اور کسی اندھے سے کہے کہ تیرے روبرو حیوان ہے احتیاط کر جبکہ اس کے سامنے کوئی حیوان نہ ہو ۔ چار: جو کسی سے کسی گھر کا پتہ پوچھے اور وہ غلط پتہ بتائے ۔ » (۴)
ائمہ معصومین علیھم السلام اگر چہ انسانوں کی معنوی ترقی کے خواہاں اور انہیں اخرت کی سمت ہدایت کرنے والے ہیں اس کے باوجود ہرگز رہبانیت ، دنیا سے گریز اور دنیا سے دوری کے قائل نہ تھے بلکہ ہمیشہ لوگوں کو اس بات کی نصیحت فرمائی کہ شادی نہ فقط معنویت کے خلاف ، اس کے مد مقابل اور اس کی راہ میں روکاوٹ نہیں ہے بلکہ انسانوں کی معنوی ترقی میں بہت زیادہ اثر انداز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: طبرسی، مجمع البیان ، ج7 ، ص 220 ۔
۲: وہی ۔
۳: وہی ۔
۴: وہی ۔
Add new comment