قران کریم کی تلاوت ایک طرف جوانوں کو خطا اور لغزشوں سے محفوظ رکھتی ہے تو دوسری جانب ان کے وجود میں نورانیت کی شمع روشن کردیتی ہے ، امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا : « مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَ هُوَ شَابٌّ مُؤْمِنٌ اخْتَلَطَ الْقُرْآنُ بِلَحْمِهِ وَ دَمِهِ وَ جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعَ السَّفَرَةِ الْکِرَامِ الْبَرَرَةِ وَ کَانَ الْقُرْآنُ حَجِیزاً عَنْهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ » (۱)اگر کوئی قران پڑھے اور وہ جوان مومن ہو تو قران اس کے گوشت و پوست اور خون میں مخلوط ہوجاتا ہے ، خداوند عزّوجلّ اسے عظیم المرتب فرشتوں کے ساتھ قرار دیتا ہے اور قیامت کے دن قران کریم اسے عذاب سے نجات دلائے گا ۔
مذکورہ مطالب انفرادی برکات کو بیان کرتے ہیں مگر سماجی و اجتماعی برکتوں کا اپنا الگ مقام ہے ۔
اخری زمانے کے بہت سارے ماں اور باپ اپنے بچوں کو نماز کا حکم نہیں دیتے ، انہیں نماز اور قران پڑھنے کے لئے نہیں کہتے جبکہ یہ قران کریم کا ارشاد ہے « وَ أْمُرْ أَهْلَکَ بِالصَّلاةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْها ؛ اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں » (۲) اور سورہ ابراھیم میں فرمایا : «رَبِّ اجْعَلْنی مُقیمَ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی رَبَّنا وَ تَقَبَّلْ دُعاءِ ؛ پروردگار مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلے » (۳)
اے کاش ! بات فقط یہی تک ختم ہوتی کہ بعض مسلمان ماں اور باپ اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہتے کیوں کہ کچھ تو دیندار بچوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ اجمالا اس بات سے بخوبی اگاہ ہیں کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور دیگر معصوم رھبروں کی سیرت و سنت اس کے سوا کچھ بھی نہ تھی اور انہوں نے نماز کی بے انتہا تاکید کی ہے ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : « لَا تَتَهَاوَنْ بِصَلَاتِكَ فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله قَالَ عِنْدَ مَوْتِهِ لَيْسَ مِنِّي مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلَاتِه... ؛ اپنی نماز کو سبک اور ہلکا شمار نہ کرو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا نماز کو سبک شمار کرنے والا مجھ سے نہیں ہے » (۴)
اهل بیت اطھار علیهم السلام اپنے بچوں کو بالغ ہونے سے پہلے نماز کی تعلیم دیا کرتے تھے تاکہ وہ نماز سے مانوس ہوسکیں ، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا : « إِنَّا نَأْمُرُ صِبْیَانَنَا بِالصَّلَاةِ إِذَا کَانُوا بَنِی خَمْسِ سِنِینَ فَمُرُوا صِبْیَانَکُمْ بِالصَّلَاةِ إِذَا کَانُوا بَنِی سَبْعِ سِنِینَ ؛ ہم اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے لہذا جب تمھارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو » (۵)
بچے اپنی فطرت کی بنیاد پر خدا کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کی عبادت کی جانب مائل ہوتے ہیں ، نماز پڑھنا چاہتے ہیں اور روزہ رکھنا چاہتے ہیں ، حضرت رسول اعظم صلّى اللَّه علیہ و آلہ و سلم نے ان والدین کے سلسلہ میں جو اپنے بچوں کو نیک عمل کی جانب مائل کرتے ہیں فرمایا کہ « «رَحِمَ اللهُ عَبْداً اَعانَ وَلَدَهُ عَلی بِرِّه بِالاِحْسانِ اِلَیْهِ ؛ خداوند متعال رحمت نازل کرے اس بندے پر جو اپنے بچے کو نیک عمل انجام دینے اور اسے نیک راستہ پر چلنے میں مدد کرے » (۶) اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا «رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَعَانَ وَلَدَهُ عَلَی بِرِّهِ ؛ خدا اس پر رحمت نازل کرے جو اپنے بچے کی نیک کام میں مدد کرے » (۷) ایک اور روایت میں فرمایا «رحِمَ الله والدین اعانا وَلَدَهُما علی بِرِّهِما ؛ خدا ان والدین پر رحمت نازل کرے جو اپنے بچوں کی نیک عمل انجام دینے پر مدد کریں » (۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کلینی، اصول کافی، ج2، ص604 ۔
۲: قران کریم ، سورہ طه ، ایت 132 ۔
۳: قران کریم ، سورہ ابراهیم ایت 40 ۔
۴: کلینی، اصول کافی، ج 3، ص 269 ۔
۵: کلینی، اصول کافی، ج3، ص409 ۔
۶: محدث نوری ، مستدرک، ج 2، ص 626 ۔
۷: محدث نوری ، مستدرک ، ج6، ص48)
۸: شیخ حر عاملی ، وسائل الشيعة، ج21، ص481 ۔
Add new comment