قران کریم اور اھلبیت علیھم السلام کی تعلیمات میں خلق خدا کی خدمت کا بہت زیادہ ثواب ہے لہذا غریب و نادار مسلمانوں کی ضرورتوں کی تکمیل ایک ثقافت اور دینی اقدار میں بدلنا عصر حاضر ضرورت ہے ۔
امام علی علیہ السلام نے اس سلسلہ میں جناب کمیل سے فرمایا «يا كُمَيلُ مُرْ أهلَكَ أنْ يَروحوا في كَسْبِ المَكارِمِ و يُدْلِجوا في حاجَةِ مَن هُو نائمٌ ۔۔۔۔ » (۱) اے کمیل اپنے خاندان والوں کو حکم دو کہ مکارم اخلاق حاصل کرنے کی کوشش کریں اور حتی رات کی تاریکی میں لوگوں کی حاجتیں برلائیں ، ان کی مشکلات کو حل کریں، قسم اس خدا کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کوئی بھی کسی مومن انسان کے دل کو مسرور و شادمان نہیں کرسکتا مگر یہ کہ خداوند متعال اسے اس نیک عمل کے بدلے، سیلاب اور زلزلہ جیسی بلاوں، مصیبتوں اور مشکلات میں اس کی مدد کرے اور اسے نجات دے ۔
قرآن کریم کا بھی اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ «تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرّ و التّقوی» ؛ نیکی اور تقوای الھی میں ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ یعنی یتیم و بے سرپرست بچے ، ضرورت مند و بے یار و مددگار افراد کی مدد کرو ۔
اور ایک دوسرے مقام پر قران کریم نے فرمایا «إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ» ؛ خدا احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
کس قدر اچھا ہے کہ انسان، محبوب خدا ہو ۔ ہم اپنی زندگی میں بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں تاکہ خدا کو راضی کرسکیں اور کیا اچھا ہے کہ خدا ہم سے راضی رہے ، اس نے اس سلسلہ میں فرمایا کہ ایک دوسرے کی خدمت کرو تاکہ تمھارا خدا تم سے محبت کرے اور راضی ہوجائے ۔
سورہ طلاق کی ۷ ویں ایت شریفہ میں اس سلسلہ میں ایا ہے کہ «لِیُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا یُکَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَیَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا» (۳) ؛ صاحبِ وسعت کو چاہئے کہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کے رزق میں تنگی ہے وہ اسی میں سے خرچ کرے جو خدا نے اسے دیا ہے کہ خدا کسی نفس کو اس سے زیادہ تکلیفنہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا گیا ہے عنقریب خدا تنگی کے بعد وسعت عطا کردے گا ۔
Add new comment