یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اور اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ دین اسلام، والدین کے لئے نہایت ہی ادب و احترام کا قائل ہے ، والدین پر حتی غضب آمیز نگاہ بھی نماز کہ جسے اسلام نے دین کا ستون قرار دیا ہے خداوند متعال کی بارگاہ میں قبول نہ ہوگی، جیسا کہ مرسل آعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مَثَلُ الصَّلاةِ مَثَلُ عَمودِ الفُسطاطِ ؛ إذا ثَبَتَ العَمودُ نَفَعَتِ الأطنابُ و الأوتادُ و الغِشاءُ، و إذا انكَسَرَ العَمودُ لم يَنفَعْ طُنُبٌ و لا وَتِدٌ و لا غِشاءٌ ۔ (۱) نماز خیمہ کے ستون کے مانند ہے کہ اگر ستون محکم ہو تب اس کی طنابیں اور کیلیں کام آئیں گی اور اگر ستون گر جائے تو نہ اس کی طنابیں کام آسکتیں ہیں اور نہ ہی اس کی کیلیں اور نہ ہی خیمہ ۔ اور آنحضرت (ص) نے اس [نماز] کی قبولیت کو تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرط جانا ہے جیسا کہ فرمایا :أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ اَلْعَبْدُ اَلصَّلاَةُ فَإِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ مَا سِوَاهَا وَ إِنْ رُدَّتْ رُدَّ مَا سِوَاهَا ۔ (۲) قیامت میں پہلی چیز جس کے بارے میں سوال ہوگا اور حساب و کتاب ہوگا وہ نماز ہے اگر نماز قبول ہوگئی تو دیگر اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر یہ رد کردی گئی تو دیگر اعمال نیز رد کردیئے جائیں گے ، لہذا ہر کوئی اپنے ایمان و اعتقاد اور اپنی توانائی اور طاقت کے بقدر ماں باپ کی شںاخت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے ۔
مگر اس مقام پر ایک منطقی اور عقلی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ حقوق فقط یک طرفہ ہیں ؟ اور ماں باپ بر بچوں کے حقوق کچھ بھی نہیں ہیں ؟ اور کیا اسلام ان [بچوں] کے لئے حقوق کا قائل نہیں ہے ؟ یقینا ایسا نہیں کیوں کہ مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور دیگر معصوم اماموں علیھم السلام سے منقول روایات میں ماں و باپ پر بچوں کے اہم حقوق کا تذکرہ ملتا ہے ، ہم اس مقام پر ان سے منقول روایات کو نقل کر رہے ہیں :
ایک: اچھا نام رکھے ۔
دو: بالغ ہونے پر ان کی شادی کرے ۔
تین : قران کریم کی انہیں تعلیم دے ۔
چار: اچھا ہنر اور کام سیکھائے ۔
پانچ: اچھار ادب سیکھائے ۔
ہم اس مقام پر کچھ احادیث کو نمونہ کے طور پیش کر رہے ہیں ۔
۱: قال رسولُ اللّه صلى الله عليه و آله : حَقُّ الوَلدِ على والِدِهِ أن يُحَسِّنَ اسمَهُ ، و يُزَوِّجَهُ إذا أدرَكَ ، و يُعَلِّمَهُ الكِتابَ ؛(۳)
رسول اسلام (ص) نے فرمایا: بچے کا باپ پر حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور بڑے ہونے کے بعد اس کی شادی کرے اور اسے کتاب [قران] سیکھائے ۔
۲: قال رسولُ اللّه صلى الله عليه و آله : حَقِّ الوَلَدِ على والِدِهِ ثَلاثَةٌ : يُحَسِّنُ اسمَهُ ، و يُعَلِّمُهُ الكِتابَةَ ، و يُزَوِّجُهُ إذا بَلَغَ ۔ (۴)
رسول اسلام (ص) نے فرمایا والد پر بچے کا تین حق ہے : ایک اچھا نام رکھے ، قران کی تعلیم دے اور بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کرے ۔
۳: قال رسولُ اللّه صلى الله عليه و آله : حَقُّ الوَلَدِ علَى الوالِدِ أن يُحَسِّنَ اسمَهُ ، و يُحَسِّنَ أدَبَهُ ۔ (۵)
رسول اسلام (ص) نے فرمایا: بچے کا والد پر حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے اچھا ادب سیکھائے ۔
۴: قال رسولُ اللّه صلى الله عليه و آله : حَقُّ الوَلَدِ على والِدِهِ أنْ يُحَسِّنَ اسمَهُ ، و يُحَسِّنَ مَوضِعَهُ ، و يُحَسِّنَ أدَبَهُ ۔ (۶)
رسول اسلام (ص) نے فرمایا: بچے کا باپ پر حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اسے اچھا ہنر سیکھائے نیز اچھی موقعیت عطا کرے اور اس کی اچھی تربیت کرے ۔
۵: لَمّا سُئلَ عن حَقِّ الوَلَدِ : تُحَسِّنُ اسمَهُ و أدَبَهُ ، و تَضَعُهُ مَوضِعا حَسَنا ۔ (۷)
جب پیغمبر خدا (ص) سے بچے کے حق کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت نے فرمایا : اس کا اچھا نام رکھے ، اس کی اچھی تربیت کرے اور اسے اچھے کام اور ہنر کی تعلیم دے ۔
۶: قال رسولُ اللّه صلى الله عليه و آله : حَقُّ الوَلَدِ على والِدِهِ أن يُعَلِّمَهُ الكِتابَةَ و السِّباحَةَ و الرِّمايَةَ و أن لا يَرزُقَهُ إلاّ طَيِّبا ۔ (۸)
رسول اسلام (ص) نے فرمایا: بچے کا اپنے والد پر حق یہ ہے کہ اسے قران کی تعلیم دے ، تیراکی اور تیر اندازی سیکھائے اور حلال رزق کے سوا کچھ بھی اسے کھانے کو نہ دے ۔
۷: قال الإمامُ عليٌّ عليه السلام : حَقُّ الوَلَدِ علَى الوالِدِ أن يُحَسِّنَ اسمَهُ ، و يُحَسِّنَ أدَبَهُ ، و يُعَلِّمَهُ القرآنَ ۔ (۹)
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا : بچے کا باپ پر حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے ، اس کی اچھی تربیت کرے اور اسے قران کی تعلیم دے ۔
۸: الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : تَجِبُ للوَلَدِ على والِدِهِ ثَلاثُ خِصالٍ : اختِيارُهُ لِوالِدَتِهِ ، و تَحسينُ اسمِهِ ، و المُبالَغَةُ في تَأديبِهِ ۔ (۱۰)
حضرت امام صادق عليه السلام نے فرمایا: بچے کا باپ پر تین حق ہے :
ایک : اچھی ماں کا انتخاب کرے ۔
دو: اچھے نام کا انتخاب کرے ۔
تین : اچھی تربیت کرنے کی کوشش کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کلینی ، اصول كافی ، ج 3، ص 266، ح 9 ۔
۲: فلاح السائل ، ج 1 ، ص 127 ، ح 348825 ۔
۳: متقی هندی ، كنز العمّال ، ح 45191 ۔
۴: طبرسی ، حسن بن فضل ، مكارم الأخلاق ، ج 1 ، ص 474 ۔ ح 1627 ۔
۵: : متقی هندی ، كنز العمّال ، ح 45192 ۔
۶: متقی هندی ، كنز العمّال ، ح 45193 ۔
۷: مجلسی ، محمد باقر، بحار الأنوار ، ج 74 ، ص 85 ، ح 99 ۔
۸: متقی هندی ، كنز العمّال ، ح 45340 ۔
۹: سید رضی ، نهج البلاغة ، حكمت 399 ۔
۱۰: مجلسی ، محمد باقر، بحار الأنوار ، ج 78 ، ص 236 ، ح 67 ۔
۱۱: متقی هندی ، كنز العمّال ، ح 45337 ۔
Add new comment