ہم نے گذشتہ قسط میں سورہ روم کی ۲۱ ویں ایت شریفہ « وَمِنْ آیاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَکمْ مِنْ أَنْفُسِکمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکنُوا إِلَیهَا وَجَعَلَ بَینَکمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِک لَآیاتٍ لِقَوْمٍ یتَفَکرُونَ ؛ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیا ہے تا کہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں» (۱) کے ذیل میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ موجودات خصوصا انسانوں کو جفت اور جوڑا پیدا کئے جانے اور خلق ہونا کے فلسفہ ، سکون و آرامش اور محبت ہے ، اس کی خداوند کریم کی نگاہ میں اس قدر زیادہ اہمیت ہے اس نے بندوں کے لئے مقام تفکر قرار دیا ہے ۔
مفسرین نے اس ایت کریمہ میں چند نکات بیان کئے ہیں کہ ہم اس مقام پر ان کی جانب اشارہ کررہے ہیں :
۱: من انفسکم أزواجاً ؛ تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیا ۔ قران کریم نے اس تعبیر کے وسیلے مرد و عورت یعنی میاں بیوی کے اپسی تعلقات کو گھرانے اور کنبے کے اہم ترین مسائل میں سے شمار کیا ہے کہ میاں بیوی کا رابطہ عشق و محبت کے سوا کسی اور چیز پر استوار نہیں ہوسکتا کیوں کہ انسان کی تمام اچھائیاں اور کمیاں بغیر کسی تکلفات کے فقط گھرانے میں ہی اشکار اور ظاھر ہو پاتی ہیں اور گھرانہ ہی وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام مشکلات کا حل موجود ہے اور انسان فطری طور سے اپنی جسمانی و روحانی بیماریوں سے نجات پاتا ہے کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان بردباری، محبت ، وفاداری ، اعتماد و اطمینان کے پودے اسی زمین لگتے ہیں اور اس کی بنیادیں اسی زمین پر رکھی جاتی ہے ۔
دین مبین اسلام کی نگاہ میں اندرونی اور باطنی الودگی و برائیاں ، بیرونی اور باہری الودگی اور برائیوں سے کہیں بدتر ہے اور اس سے دوری و نجات کا بہترین بلکہ یوں کہا جائے کہ تنہا مرکز اور سنٹر گھرانہ ہے کہ وہاں انسان کی تمام کمیاں اور اس کے منفی گوشے یا اندرونی و روحانی و نفسیاتی بیماری کا علاج ہو پاتا ہے ، گھرانہ ہی انسان کو گمراہی کے دلدل سے نکال کر اچھائیوں کے راستہ پر لگاتا ہے ، گھرانہ ہی انسان کی کمیوں اور اس کے اندر موجود بے جا خوف و ہراس اور ڈر دور کو کرتا ہے اور اسے محکم و مستحکم بنا دیتا ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ عشق و محبت کی طاقت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے سہارے انسان اپنے ہر مقصود کو پاسکتا ہے ۔
۲۔ لتسکنوا ؛ تا کہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو ۔ (سُکنی) چین و سکون کے مکان کو کہتے ہیں ، قران کریم کی یہ تعبیر اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ دنیا میں موجود تمام انسانوں کو چین و سکون کی ضرورت ہوتی ہے اور قران کریم کی نگاہ میں فیملی اس چین و سکون کو فراھم کرنے پر موظف ہے چاہے میاں ہو ، بیوی ہو یا بچے اور اولاد ۔
۳ ۔ و جعل بینکم مودّة ؛ اور تمہارے درمیان محبت قرار دی ہے ۔ اس ایت کریمہ میں موجود تیسرا اہم نکتہ میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت کا قیام ہے ، میاں بیوی خود اور اپنے خدا کی شناخت میں اپسی تعامل و تعاون کے ذریعہ چین و سکون کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں اور وادی امن الھی میں قدم رکھ سکتے ہیں ، اسی بنیاد پر قران کریم نے کہا کہ (لتسکنوا الیها) ۔
۴ ۔ جَعَلَ بَینَکمْ ۔۔۔۔ رَحْمَةً ؛ تمہارے درمیان رحمت قرار دی ہے ۔ میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت اور ان کا اپسی تعامل گھرانے اور سماج کو گلستان بنا دیتا ہے لہذا میاں بیوی کے مثبت اور مناسب تعلقات اور ان کی گھریلو زندگی کا ہر پل اور لمحہ ، گھر میں موجود افراد خصوصا بچوں پر اثر انداز اور ان کے لئے بہترین سرمشق ہے ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم، سورہ روم ، ایت ۲۱ ۔
۲: مذکورہ مطالب امام موسى صدر کی بہن محترمہ ڈاکٹر فاطمہ صدر طباطبائى کے مقالہ سے اقتباس ہے ۔
Add new comment