ہر کوئی اپنی توانائی اور طاقت سے خود واقف ہے کہ وہ کس قدر اپنے مقصد میں کامیاب اور کس قدر ناکام رہا ہے ، قران کریم کے ارشاد کے مطابق «بَلِ الْانسَانُ عَلىَ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ، وَ لَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ ؛ بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے (۱۵) چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے » (۱) [قیامت/14 و 15] یہ ایت کریمہ ہمیں سمجھا رہی ہے کہ اے نماز پڑھنے والے ، روزہ رکھنے والے ، تلاش و کوشش کرنے والے ، ملازمت اور کام کاج کرنے والے ، نوکری اور ڈیوٹی کرنے والے اور اے تعلیم حاصل کرنے تم خود اپنے بارے میں بہتر جانتے ہو کہ ایا تم نے اپنے وظیفہ پر صحیح و درست عمل کیا ہے یا نہیں ؟
گزرنے والے اس ایک ماہ کی مدت میں انسان خداوند متعال و مہربان عالم کا مہمان رہا ، اسے کافی مواقع فراھم کئے گئے ، کیا اس نے اس موقع سے بخوبی استفادہ بھی کیا ؟ رحمتوں سے بھرا یہ مہینہ ختم بھی ہوگیا اور عید فطر بھی آپہنچی انسان خود کے حالات کا جائزہ لے کہ وہ کس مقام پر کھڑا ہے اور اسے کتنی فیصد کامیابی ملی ہے اور کتنی فیصد ناکامی سے روبرو رہا ہے ، یعنی اس امتحان الھی میں اس کے مارکس کتنے ہیں اور اسے کتنے نمبر ملے ! جب ہم احادیث پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ھمیں یہ عظیم درس ملتا ہے ہر کسی کو اپنا عمل تولنا چاہئے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ « مَن لَم یُغفَر لَهُ فی شهرِ رمضانَ لَم یُغفَر لَهُ إلی مِثلِهِ مِن قابِلٍ الّا أن یَشهَدَ عَرَفَةَ » (۱) جو اس ماہ میں نہیں بخشا کیا ائندہ رمضان تک نہ بخشا جائے گا مگر یہ کہ میدان عرفہ میں حاضر ہو ۔ اگر ہم اس حدیث اور گذشتہ ایت کریمہ کو ایک دوسرے کے پہلو میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو خود اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ اس نے اس ماہ مبارک میں خدا کے حضور مہمان بن کر کتنی رحمتیں اکٹھا کی ہیں اور کس قدر مغفرت کے دریا میں غوطہ لگا کر اپنی بخشش کا سامان فراھم کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قاضی نعمان مغربی ، دعائم الاسلام ج ۱ ، ص ۲۶۹
Add new comment