سید محمد حسین حسینی تھرانی دعائے ابوحمزہ ثمالی کے اس فقرے "و أنَّ الرَّاحِلَ إلیک قریبُ المسافة ؛ تیری طرف آنے والے کی منزل قریب ہے" کی تفسیر اور تشریح میں فرماتے ہیں کہ ادبیات عرب (عربی گرامی) کے لحاظ سے «أنّ» گذشتہ فقرہ «أَعْلَمُ أَنَّكَ لِلرَّاجِينَ ؛ اور میں جانتا ہوں کہ تو امیدوار کی جائے قبولیت ہے » میں موجود «أنّک» پر عطف ہے ، یعنی پروردگارا ! میں اس بات سے اگاہ ہوں کہ مسافر اپنے مرکب پر "چاہے وہ مرکب نفس ہو یا ارادہ ہو یا اختیار ہو یا جو بھی ہو" سوار تیری جانب بڑھنے کے لئے مکمل طور پر امادہ و تیار ہے، جو چیز اس مقام پر طے ہے اور مسلمات میں سے ہے وہ یہ ہے کہ مسافر اور سفر کرنے والا خود انسان کا نفس ہے جس نے حرم الھی اور بارگاہ احدیت کا قصد کیا ہے اور اس سے ملاقات و دیدار کی امید میں خود کی تربیت و تذکیہ کو لازم و ضروری جانا ہے ۔ تو منزل مقصود ہے اور ایسی منزل جو دور نہیں ، اسی بنیاد پر امام سجاد علیہ السلام کے ارشاد ہے "قریبُ المسافَةِ" منزل بہت ہی قریب ہے ، اور قران کریم نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے کہ "وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ" (۱) یعنی وہ [خدا] رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ۔
البتہ ہر سفر کا لازمہ یہ ہے کہ انسان غیر ضروری سامان لیکر نہ چلے بلکہ جو بہت ہی ضروری ہے بس اسے ہی اپنے ہمراہ لیکر چلے تو اسے سفر میں اسانی ہوگی اور مسافر نجات پائے گا نیز اسانی کے ساتھ منزل مقصود تک پہونچ جائے گا، مثال کے طور پر اگر کسی علاقہ میں زلزلہ اجائے ، جنگ ہوجائے یا بحرانی حالات پیدا ہوجائیں تو لوگ فقط و فقط ضروری چیزیں ہی لیکر چلتے ہیں کوئی اپنی بھاری بھرکم تجویریاں لیکر نہیں چلتا کہ جو اس کے لئے وبال جان بن جائے ۔ (۲)
امام علی علیہ السلام نے جناب سلمان فارسی رضوان اللہ علیہ کو جب مدائن کا گورنر بناکر بھیجا تو اپ گورنر ھاوس نہیں گئے بلکہ ایک معمولی سے مکان میں تشریف لے گئے ، اپ کے ساتھ ایک چٹائی ، ایک پلیٹ ، ایک پیالہ اور ایک لوٹا تھا ، اپ کا پورا سرمایہ یہی تھا ، نہ دنیا کی رنگینیاں اور نہ ہی کوئی ساز و سامان ۔ ایک بار مدائن میں آگ لگ گئی سارا شھر چیخ و پکار کی آواز سے گونج اٹھا ، ہرطرف سے فریادیں سنائی دینے لگیں ، مگر جناب سلمان فارسی نے اپنا مختصر سا سامان اٹھایا اور گھر سے نکل گئے ، نہ کوئی چیخ ، نہ کوئی پکار اور نہ ہی کوئی فریاد ، «نجا المخفّفون» ۔ (۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے جد علیّ بن أبی طالب علیه السّلام سے اور وہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا « یا علیُّ أُوصیکَ بوصیّةٍ فَاحْفظها فلن تزال بخیرٍ ما حَفِظْتَ وصیّتی... یا علیّ نَجَا المُخَفَّفُونَ [المُخِفُّونَ] و هَلَکَ المُثقِلون ؛ اے علی میں تمھیں ایک نصیحت کرتا ہوں کہ جس پر عمل کرنا اور جب تک اس پر عمل پیرا رہو گے صحیح راستہ پر گامزن رہوگے ۔ اے علی کم اور ہلکا سامان سفر لیکر چلنے والے نجات پائیں گے اور سنگین و وزنی سامان سفر لیکر چلنے والے ہلاک ہوجائیں گے ۔ (۴)
لہذا اگر انسان بھی خود کو دنیا کی رنگینیوں اور خواہشات نفس سے دور رکھکر خدا کی جانب قدم بڑھائے اور خود کو ملکوت اعلی کا مسافر سمجھے تو یقینا یہ فاصلہ اور مسافت بہت کم ہوجاتی ہے کیوں خدا کی جانب اٹھنے والے قدم "قریبالمسافه" مصداق ہیں اور وہ رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سوره ق ، آیت ۱۶
۲: طهرانی، علامه آیة اللَه سید محمد حسین حسینی ، شرح فقراتی از دعای ابو حمزه ثمالی ، ج ۱ ، ص ۱۲۵
۳: الجزائری، سيد نعمت الله ، الأنوار النعمانیة ، ج ١، ص ٤٣
۴: مجلسی ، محمد باقر، بحار الأنوار ، ج ۷۷ ، ص ۵۵ ، ح ۳
Add new comment