شرح دعائے ابوحمزه ثمالی (۱۴)

Sun, 04/24/2022 - 07:45

ہم نے گذشتہ قسط میں "وَ أَنَّ الرَّاحِلَ إِلَيْكَ قَرِيبُ الْمَسَافَةِ ‏؛ تیری طرف آنے والے کی منزل قریب ہے " کے فقرے کی شرح میں تحریر کیا تھا کہ دنیا قیام کی جگہ نہیں بلکہ گزرگاہ ہے ، آیت اللہ جوادی آملی دعائے ابوحمزہ ثمالی کے اس فقرے کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ دعا کا یہ جملہ بہت ہی اہم و کلیدی ہے اور کئی بار اس نورانی دعا میں تکرار ہوا ہے ۔

اگر کوئی خداوند متعال کی جانب سفر کرنا چاہتا، اس کی جانب قدم بڑھانا چاہتا ہے یعنی "مِنَ الخَلقِ إلَی الحَقّ" کی منزلیں طے کرنا چاہتا تو اسے دنیا کی رنگینیوں میں گم ہونے کے بجائے اخرت کیلئے زاد راہ اکٹھا کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آه ! "مِنْ قِلَّهِ الزَاد وَ طُولِ الطَّرِیق ؛ افسوس ! زاد سفر کی کمی اور سفر کا طولانی ہونا" (۱)

خدایا ! اگرچہ میں مستحق نہیں ہوں مگر تیری امید کے سہارے ایا ہوں ، تجھے اپنا اخری مقصود اور اخری منزل جانتا ہوں ، خدایا ! تونے مجھ دعوت دی اور تونے خود ہی فرمایا "وَاسئَلُوا اللهَ مِنْ فَضلِه ؛ میرے فضل و کرم کے سہارے مانگو " (۲)

البتہ ائمہ طاھرین علیھم السلام کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کے دوش پر گناہوں کا سنگین بوجھ نہ ہو اور وہ خدا کی جانب کوچ کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے یہ رحلت اور کوچ سنگین و سخت نہیں ہے ۔ اسی بنیاد پر امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا "وَ أَنَّ الرَّاحِلَ إِلَيْكَ قَرِيبُ الْمَسَافَةِ ؛ تیری سمت آنے والے کی منزل قریب ہے " کیوں کہ خدا اور بندے کے بیچ ایک قدم سے زیادہ کا فاصلہ نہیں ہے بشرطیکہ انسان اپنی خواہشات پر قدم رکھ کر اگے بڑھے ، اپنے خواہشات نفس کو اپنے قدموں سے کچل دے تو اس کا دوسرا قدم توحید کے احاطہ میں ہوگا ۔

امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزہ ثمالی کے بعد کے فقرے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ "أَنَّكَ لاَ تَحْتَجِبُ عَنْ خَلْقِكَ ؛ [خدایا!] تیرے اور تیری مخلوق کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے"  تو اپنی مخلوق سے اوجھل نہیں ہے ، حضرت امام  موسى بن جعفرعلیھما السلام نے ۲۷ ویں ماہ رجب کی دعا میں کہ جو اپ کو بغداد کی جانب لے جائے جانے دن ہے، اسی بات کا تذکر کرتے ہوئے فرمایا "وَ أَنَّکَ لا تَحْتَجِبُ عَنْ خَلْقِکَ إِلا أَنْ تَحْجُبَهُمُ الْأَعْمَالُ دُونَکَ ؛ تو بندوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے مگر یہ ان کے اعمال و کردار نے تیرے اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا ہے " ۔ (۳)

اج ہم دنیا اور اپنی خواہشات نفس کا اتنا زیادہ شکار ہوچکے ہیں کہ جیسے دنیا ہی ہمارا حقیقی مسکن ہو اور ہمیں اس دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا ہو جبکہ مرسل آعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں کہ "مَالِی وَ لِلدُّنیا ؟ ہمیں دنیا سے کیا مطلب ؟ پھر فرمایا "إِنَّما أَنا کَرَاکِبٌ إَستَظِلَّ تَحتَ الشَّجَرَهِ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَهَا ؛ ہماری مثال اس مسافر کے مانند ہے جو کچھ دیر کے لئے درخت کے نیچے ارام کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہے اور پھر اسے وہیں چھوڑ کر اپنے سفر پر نکل پڑتا ہے ۔ نیز حضرت نے فرمایا " کُن فِی الدُّنیا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ أَو عَابِرِ سَبِیل ؛ دنیا میں مسافر اور راہگیر کے مانند زندگی گزارو ۔ (۴) کیوں کہ تمھاری منزل دنیا نہیں بلکہ اخرت ہے ، اخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے کہیں طولانی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: نهج البلاغة ، الحكمة ۷۷
۲: قران کریم ، سورہ نساء ، آیت ۳۲
۳: سید بن طاووس ، کتاب اقبال الاعمال ۔ ۲۷ ویں رجب کے اعمال
۴؛ طوسی ، محمد بن حسن ، الأمالی ، ۳۸۱/۸۱۹  ۔ نیشابوری ، فتال ، روضة الواعظین ،  ج ۲ ، ص ۴۴۸ 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 29