حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
" إِنَّ جَميعَ ما طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ في مَشارِقِ الاْرْضِ وَمغارِبِها بَحْرِها وَبَرِّها وَسَهْلِها وَجَبَلِها عِنْدَ وَلِىٍّ مِنْ أوْلِياءِ اللهِ وَأهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِحَقِّ اللهِ كَفِىْءِ الظِّلالِ ؛ تمام وہ جو مشرق و مغرب ، دریا و خشکی ، صحر اور پہاڑ اور جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ، اولیاء الھی اور خدا شناسوں کے نزدیک سایہ کی بازگشت کے مانند ہے ۔ " [1]،[2] جس طرح سایہ بہت تیزی کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے انسان کی حیات اور زندگی بھی اسی طرح ہے ۔[3]
كتاب تنبيه الخواطر میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت امام حسن بن على عليهما السلام اس شعر کو بہت زیادہ اس کو پڑھا کرتے تھے :
يا أهْلَ لَذّاتِ دُنْيا لا بَقاءَ لَها
انَّ اغْتِراراً بِظِلّ زائِلٍ حُمُقٌ
اے اہل دنیا ! دنیا کی لذتوں میں بقا نہیں ہے
زائل ہوجانے والے سایہ پر مغرور ہونا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ [4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار؛ ج 1؛ ص 144.
[2] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج 13 ؛ ص471.
[3] سابق.
[4] سابق.
Add new comment